مرآۃ المناجیح شرح مشکٰوۃ المصابیح جلد ہشتم |
روایت ہے حضرت کعب سے ۱؎ وہ توریت سے حکایت کرتے ہیں فرمایا ہم وہاں لکھا پاتے ہیں ۲؎ کہ محمد صلی الله علیہ وسلم الله کے رسول ہیں میرے پسندیدہ بندے ہیں۳؎ نہ سخت دل ہیں اور نہ سخت زبان اور نہ بازاروں میں شور مچانے والے۴؎ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے لیکن معاف فرمادیتے ہیں بخش دیتے ہیں۵؎ ان کی ولادت مکہ میں ہوگی۶؎ اور ان کی ہجرت مدینہ میں۷؎ اور ان کا ملک شام میں۸؎ ان کے امتی بہت حمد کرنے والے ہیں،آرام و تکلیف میں الله کی حمدکریں گے اور ہر درجہ میں الله کی حمد کریں گے ۹؎ اور ہر بلندی پر الله کی تکبیر کہیں گے۱۰؎ سورج کا خیال رکھیں گے ۱۱؎ جب نماز کا وقت آوے گا تو نماز پڑھا کریں گے۱۲؎ اپنی کمر پر تہبند باندھیں گے۱۳؎ اور اپنے اعضاء پر وضو کیا کریں گے۱۴؎ ان کا مؤذن آسمان کی فضا میں اذان دیا کرے گا۱۵؎ ان کی صف جہاد میں اور ان کی صف نماز میں برابر ہوگی۱۶؎ رات میں ان کی گنگناہٹ شہد کی مکھی کی بھنکار کی طرح ہوگی۱۷؎ یہ مصابیح کے لفظ ہیں،دارمی نے معمولی فرق سے روایت کی۔
شرح
۱؎ محاسن جمع ہے حسن کی،خلاف قیاس اس کے معنی ہیں خوبی عمدگی یا خوب عمدہ اعلیٰ۔افعال جمع ہے فعل کی بمعنی ظاہر اعضاء کے ظاہری کام یعنی ہماری تشریف آوری اس لیے ہے کہ ہم تمام لوگو ں کی دل کی عادتیں بھی اعلٰی درجہ کی کردیں اور ظاہری اعمال بھی،یا ان کے عقیدے بھی ٹھیک کردیں اور اعمال بھی،یا انہیں طریقت بھی سکھادیں شریعت بھی۔بعض شارحین نے فرمایا کہ ذاتی خوبی کو کرم کہا جاتا ہے،بیرونی خوبی کو کمال۔رب فرماتاہے:"مِنۡ کُلِّ زَوْجٍ کَرِیۡمٍ"یا مقام کریم یا قرآن کریم حضور نے دنیا کی نیت ارادے عقیدے دلی حالات بھی درست فرمائے اور ان کی عبادات معاملات بھی ٹھیک کئے،انسان کو فرشتوں سے آگے بڑھا دیا،عرب کون تھے انہیں کیا کر دیا۔شعر سب چمک والے اجلوں میں چمکا کئے اندھے شیشوں میں چمکا ہمارا نبی حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ الله جس کی بھلائی چاہتا ہے اسے صدق مقال،اکل حلال،سائلین کی حاجت روائی، امانت کی حفاظت،حیاء اور شرم،پڑوسیوں سے اچھا سلوک،مہمان کی تواضع،بڑوں کا احترام،چھوٹوں کا لحاظ،ماں باپ کی خدمت نصیب فرماتا ہے یہ اخلاق محمدیہ کا ایک کرشمہ ہیں۔(از مرقات) ۲؎ آپ مشہور تابعی ہیں،آپ کو کعب احبار کہتے ہیں،یہود کے بڑے عالم توریت کے ماہر تھے،حضور انور کا زمانہ شریف پایا مگر اس زمانہ میں نہ ایمان لائے نہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے،عہد فاروقی میں ایمان لائے،آپ کی کنیت ابو اسحاق ہے،خلافت عثمانیہ میں ۳۲ھ میں مقام حمص میں وفات پائی وہاں ہی دفن ہوئے۔(اکمال) ۳؎ مختار کے معنی پسندیدہ بھی ہیں اور اختیار والا بھی حضور،دونوں معنی سے مختار ہیں حضور کو الله نے اپنے خزانوں کا مالک کیا مختار کیا۔مختار تو توریت میں بھی آپ کو کہا گیا ہے۔شعر کنجی تمہیں دی اپنے خزانوں کی خدا نے سرکار کیا مالک و مختار بنایا مختار مقابل ہے مجبور کا،حضور مجبور نہیں مختار ہیں۔ ۴؎ حضور انور دل کے نرم،زبان کے نرم،طبیعت کے نرم تھے،بازار میں تشریف لے جاتے تھے مگر تبلیغ احکام کے لیے نہ کہ محض سیرو تماشہ کے لیے،یہاں بازار میں جانے کی نفی نہیں بلکہ وہاں گھومنے پھرنے وہاں چیخ و پکار کرنے کی نفی ہے۔ ۵؎ ہم عفو اور غفر کے فرق پہلے بیان کرچکے ہیں۔چھوٹے گناہ معاف کرنا غفر ہے،حق العباد معاف کرنا عفو ہے،حق الله معاف کرنا غفر،جرم معاف کردینا عفو ہے اور جرم چھپا لینا کہ اس کا کبھی ذکر نہ کیا جاوے تاکہ اسے شرمندگی نہ ہو غفر ہے۔مدارج النبوۃ میں ہے کہ جب عکرمہ ابن ابی جہل ایمان لائے تو حضور انور صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو تاکید فرمادی کہ عکرمہ کے سامنے کوئی ابوجہل کو برا نہ کہے کہ اس سے فطری طور پر عکرمہ کو تکلیف ہوگی۔خیال رہے کہ ہمارے ہر گناہ میں حق تعالٰی بھی مارا جاتا ہے اور حق الرسول بھی لہذا ہر گناہ کی معافی حضور سے مانگنا جائز ہے کیونکہ ہمارے گناہ سے حضور کو تکلیف ہوتی ہے"عَزِیۡزٌ عَلَیۡہِ مَاعَنِتُّمْ"۔ ۶؎ خیال رہے کہ حضور کی پیدائش تو مکہ میں ہوئی مگر حضور صلی الله علیہ وسلم کی آمد سارے جہاں میں جیسے سورج رہتا ہے چوتھے آسمان پر مگر چمکتا ہے سارے جہان پر اسی لیے رب نے تمام جہان سے خطاب فرمایا:"لَقَدْ جَآءَکُمْ رَسُوۡلٌ"پھر جیسے سورج روشنی ساری زمین پر دیتا ہے مگر پھل پھول کی پختگی باغوں کھیتوں میں کرتا ہے،لعل بناتا ہے بدخشاں کے پہاڑوں میں حضور نے ایمان سب کو دیا مگر ولایت و صحابیت کسی کسی کو۔ ۷؎ مدینہ منورہ کے بہت نام ہیں جن میں سے ایک نام طیبہ ہے یعنی نکھاری ہوئی صاف کی ہوئی زمین کہ رب نے یہاں کی وبا منتقل کرکے ہجر میں بھیج دیں اور اسے شفا کا گھر بنادیا،اب مدینہ کی خاک کا نام خاک شفا ہے۔ ۸؎ یعنی ان کے بعد ان کی خلافت مدینہ یا عراق میں رہے گی مگر ان کی سلطنت شام میں ہوگی۔چنانچہ اسلام کے پہلے سلطان حضرت امیر معاویہ کا دارالخلافہ دمشق بنا یعنی ملک شام کا ایک شہر،یہاں ملک سے مراد ملک نبوت نہیں حضور صلی الله علیہ وسلم کا ملک نبوت تو سارا جہاں ہے"لِیَکُوۡنَ لِلْعٰلَمِیۡنَ نَذِیۡرَا"۔(مرقات)اور اگر ملک نبوت مراد ہو تو چونکہ شام میں ہمیشہ جہادوں کا زور رہا ہے اس لیے اسے خصوصیت سے بیان کیا۔ ۹؎ سبحان الله! نبی محمد ہیں اور امت حمادون یعنی ہر حال میں حمد الٰہی کرنے والی،ایسی پاکیزہ امت کسی نبی کو نہیں ملی۔ ۱۰؎ یعنی اونچے قلعوں میں رہ کر بھی الله کی عبادت کریں گے اور نیچے جھونپڑوں میں بھی۔ ۱۱؎ یعنی نماز اور روزوں کی وجہ سے ہمیشہ سورج کے طلوع غروب استواء کا حساب رکھیں گے اور اس کی جنتریاں چھاپا کریں گے۔اسلامی نمازیں افطار سحری تو سورج سے ہیں مگر خود روزے عیدیں حج وغیرہ چاند سے اس لیے مسلمان دونوں کا حساب رکھتے ہیں اور کوئی قوم یہ دونوں کام نہیں کرتی۔ ۱۲؎ نماز پنجگانہ سواء اسلام کے کسی اور دین میں نہیں ہوئیں اس لیے اس امت کی صفات یہ بیان ہوئیں۔ ۱۳؎ انصاف جمع ہے نصف کی بمعنی آدھا،یہاں مراد ہے جسم کا آدھا یعنی کہ مطلب یہ ہے کہ ہمیشہ کمر پر تہبند پائجامہ باندھے رہیں گے،نہ تو ننگے پھریں گے،نہ ننگے رہیں گے،نہ ننگے نہائیں گے۔اس میں اشارۃً فرمایا گیا کہ وہ لوگ باپردہ بہت رہیں گے ستر ڈھکے رہا کریں گے۔یا انصاف سے مراد ہے آدھی پنڈلی تب علیٰ بمعنی الی ہے یعنی ان کے تہبند پائجامے ٹخنوں کے نیچے نہ ہوا کریں گے تاکہ گندے نہ رہیں بلکہ ٹخنوں سے اونچے ہوا کریں گے کہ پاک رہیں اس صورت میں یہ مسلمانوں کی پاکیزگی اور صفائی کا ذکر ہے۔(لمعات،مرقات،اشعہ)ہماری اس شرح سے یہ اعتراض اٹھ گیا کہ حضور انور نے ٹخنوں سے اوپر تک تہبند لٹکانے کی اجازت دی ہے اور یہاں نصف پنڈلی فرمایا گیا۔ ۱۴؎ یعنی نماز کے پابند ہوں گے اس پابندی کی وجہ سے وہ ہمیشہ نہایت مبالغہ سے وضو کیا کریں گے۔خیال رہے کہ پچھلی بعض امتوں پر بھی نمازیں فرض تھیں اور وہ لوگ وضو بھی کرتے تھے مگر مسلمانوں کی طرح پابند نہ تھے۔ ۱۵؎ گذشتہ امتوں میں نماز کا اعلان اذان سے نہیں ہوتا تھا کسی دین میں گھنٹے بجائے جاتے تھے،کسی میں آگ روشن کرکے نماز کی اطاع دی جاتی تھی،اذان اسلام کی خصوصیت سے ہے۔آسمانی فضا بتاکر فرمایا گیا کہ مؤذن اونچے میناروں پر اذانیں دیا کریں گے،اب لاؤڈ اسپیکر پر اذان بہت ہی لطف دیتی ہے ساری فضا ساری بستی گونج جاتی ہے سبحان الله! کبھی فجر کے وقت کی اذانیں سنو اور یہ حدیث پڑھو۔ ۱۶؎ یعنی مسلمانوں میں تاقیامت نمازیں باجماعت ہوتی رہیں گی اور جہاد قائم رہیں گے وہ لوگ نمازوں جہادوں میں بڑے اہتمام سے صفیں بنایا کریں گے۔نماز میں مسلمان نفس اور شیطان سے جہاد کرتا ہے جہاد میں کفار سے اس لیے یہاں نماز اور جہاد کی صفوف کا ایک جگہ ذکر فرمایا گیا۔ ۱۷؎ ظاہر یہ ہے کہ یہاں اس سے مراد آخری رات کی نماز ہے یعنی تہجد،وہ لوگ تہجد کی نماز میں قرأت قرآنیہ آہستہ کیا کریں گے مگر پھر بھی ان کے سینوں سے رونے کی گڑگڑاہٹ ایسی محسوس ہوگی جیسے شہد کی مکھیوں کی بنبناہٹ،یا اس سے مراد ہے آہستہ آہستہ درد والی آواز سے تلاوت قرآن اور تسبیح و تہلیل ہے،الله تعالٰی یہ علامت ہم گنہگاروں کوبھی نصیب فرمائے۔آمین