مرآۃ المناجیح شرح مشکٰوۃ المصابیح جلد ہشتم |
روایت ہے حضرت انس سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہ جب لوگ اٹھائیں جاوے گے ان سب میں پہلے ہم قبر انور سے باہر آئیں گے ۱؎ اور جب لوگ وفد بنیں گے تو ہم پیش رو ہوں گے ۲؎ اور لوگ جب خاموش ہوں گے تو ہم ان کے خطیب ہوں گے ۳؎ اور جب لوگ روکے ہوئے ہوں گے۴؎ تو ان کے شفیع ہوں گے،لوگ جب مایوس ہوں گے تو انہیں بشارت دینے والے ہم ہوں گے۵؎ اس دن عزت اور کنجیاں ہمارے ہاتھ ہوں گی ۶؎ حمد کا جھنڈا اس دن ہمارے ہاتھ ہوگا،میں ساری اولاد آدم میں اپنے رب کے نزدیک زیادہ عزت والا ہوں۷؎ ہمارے پاس ایک ہزار خدام گھومیں گے گویا وہ محفوظ انڈے ہیں۸؎ یا بکھرے ہوئے موتی ۹؎ (ترمذی،دارمی)اور ترمذی نے فرمایا یہ حدیث غریب ہے۔
شرح
۱؎ اس کی شرح گزر چکی کہ جب قیامت میں دوسرے نفخہ پر قبریں کھلیں گی مردے نکلیں گے زندہ ہوکر تو اس کی ترتیب یہ ہوگی کہ سب سے پہلے حضور انور کی قبر کھلے گی اور نبیوں کے بعد میں،پھر سب سے پہلے حضرت صدیق و فاروق کی قبریں کھلیں گی دوسرے لوگوں کی بعد میں اس کا یہاں ذکر ہے۔ ۲؎ قرآن کریم فرماتاہے:"یَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِیۡنَ اِلَی الرَّحْمٰنِ وَفْدًا وَّ نَسُوۡقُ الْمُجْرِمِیۡنَ اِلٰی جَہَنَّمَ وِرْدًا"جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن متقی مؤمن رب کی بارگاہ میں وفد اور نمائندوں کی صورت میں اس سے ملنے کے لیے حاضر ہوں گے اس وقت حضور انور ان سب کے پیشوا اور پیشرو ہوں گے،حضور ہی کے ذریعے لوگ رب سے ملیں گے،حضور ہی رب تعالٰی کا جواب ان لوگوں کو سنائیں گے یہ واقعہ قیامت میں ہوگا۔ ۴؎ یہ واقعہ شفاعت کبریٰ کا ہے جب کہ مخلوق سخت پریشان ہوکر انبیاءکرام کی خدمت میں حاضر ہوگی اور کوئی رسول شفاعت کی جرأت نہ کریں گے رب کی بارگاہ میں سب ہی خاموش ہوں گے،اس وقت حضور ہی سجدہ کرکے حمد الٰہی کرکے شفاعت کریں گے۔خطیب بمعنی پیغام پہنچانے والا خطاب کرنے والا،بندوں کی طرف سے رب کی بارگاہ میں عرض و معروض اور رب کی طرف سے بندوں کو فرمان سنانا اس وقت حضور ہی کا کام ہوگا اس کا ذکر ہے۔ ۴؎ یعنی جب لوگ میدان محشر میں جمع تو کردیئے جائیں گے مگر کوئی ان کا پرسان حال نہ ہوگا سخت گرمی سے کلیجے منہ کو آگئے ہوں گے،سب خاموش"فَلَا تَسْمَعُ اِلَّا ہَمْسًا"تب حضور انور رب سے عرض کرکے حساب وکتاب شروع کرائیں گے،حضور کی شفاعت قیامت کے تمام کاموں کی کنجی ہوگی۔ ۵؎ یہاں یاس سے مراد خوف کے باعث گویا بخشش سے مایوسی چھاجانا۔اول قیامت میں مؤمنوں کا یہ حال ہوگا تب حضور صلی الله علیہ وسلم ان کو رب کی طرف سے بخشش رحمت مغفرت کی خوشخبری دیں گے کہ مت گھبراؤ تم بخشے جاؤ گے،رب تم پر رحم فرمائے گا۔اس بشارت پر دھڑکتے دل ٹھہر جائیں گے،روتی آنکھیں خشک ہوجائیں گی،لبوں پر مسکراہٹ آجاوے گی مگر یہ بشارات مؤمنوں کے لیے ہوں گی۔ ۶؎ یعنی نبیوں ولیوں کو عزت،گنہگاروں کو بخشش،سیہ کاروں کو معافی میرے ذریعہ سے ملے،الله تعالٰی کے لاکھوں خزانے ہیں ہر خزانہ میں کروڑوں رحمتیں ان سب خزانوں کی چابیاں حضور انور کے ہاتھ ہوں گی ؎ لا ورب البیت جو جس کو ملا ان سے ملا بٹتی ہے کونین میں نعمت رسول الله کی ۷؎ اولاد آدم سے مراد سارے انسان ہیں جن میں حضرت آدم و حوا بھی داخل ہیں حضور ان سے بھی افضل ہیں اور جب سارے انسانوں سے حضور افضل ہیں تو باقی مخلوق فرشتے جن وغیرہ سے بھی افضل ہیں کہ انسان ان سب سے افضل ہے۔لہذا حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم افضل الخلق ہیں۔رب نے مکہ معظمہ کی قسم اس لیے فرمائی کہ وہاں حضور جلوہ گر ہیں"لَاۤ اُقْسِمُ بِہٰذَا الْبَلَدِ وَ اَنۡتَ حِلٌّۢ بِہٰذَا الْبَلَدِ "ان شاءاﷲ یہ تمام صفات قیامت میں سب آنکھوں سے دیکھیں گے جو یہاں بیان ہے وہاں عیاں ہوگا۔ ۸؎ بیض جمع ہے بیضۃ کی بمعنی انڈا،اس سے شتر مرغ کے انڈے مراد ہیں۔مکنون کے معنی ہیں جسے گردوغبار نہ پہنچا اپنی اصلی صفائی پر ہوں۔عرب میں شتر مرغ کے انڈے کے رنگ کو بہت حسین سمجھتے تھے لہذا انہیں سمجھانے کے لیے یہ فرمایا یعنی سفیدی مائل بہ زردی اس لیے قرآن کریم نے حوروں کا حسن اسی طرح بیان فرمایا"کَاَنَّہُنَّ بَیۡضٌ مَّکْنُوۡنٌ"باقی دنیا میں جیسے حلب شام وغیرہ میں سفیدی مائل بہ سرخی کو پسند کیا جاتا ہے حضور انور کا حسن ایسا ہی تھا جیساکہ حلیہ شریف کے بیان میں آوے گا۔(مرقات) ۹؎ یہاں او فرمانے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تشبیہ صرف عرب کو سمجھانے کے لیے ہے کہ یوں سمجھو جیسے شتر مرغ کے محفوظ انڈے یا یوں سمجھو جیسے درنا سفۃ۔خیال رہے کہ موتی جس میں سوراخ نہ کیا جائے اور اسے دھاگہ میں نہ پرویا جائے وہ زیادہ حسین معلوم ہوتا ہے سوراخ کیے ہوئے موتی کے مقابلہ میں کہ وہ اپنے سیپ والی حالت پر ہوتا ہے اس لیے ہر جگہ در منثور سے تشبیہ دی جاتی ہے یعنی بغیر پروئے ہوئے موتی ہیں بکھرے ہوئے،نیز وہ خادم حضور کے ہرطرف پھیلے ہوں گے لہذا انہیں بکھرے موتیوں سے تشبیہ دینا بہت ہی موزوں ہے۔یہ خدام یا تو قیامت ہی میں حضور کے گردوپیش ہوں گے یا جنت میں،اگر جنت میں ہیں تو علاوہ ان غلمانوں کے ہوں گے جو دوسرے جنتیوں کو عطا ہوں گے۔