مرآۃ المناجیح شرح مشکٰوۃ المصابیح جلد ہشتم |
روایت ہے حضرت ابن عباس رضی الله عنہما سے فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کچھ لوگ بیٹھے ۱؎ پھر حضور انور تشریف لائے حتی کہ ان حضرات سے قریب ہوگئے ۲؎ تو انہیں کچھ تذکرہ کرتے سنا۳؎ ان میں سے بعض نے کہا کہ الله نے حضرت ابراہیم کو اپنا دوست بنایا،دوسرے صاحب بولے کہ الله نے حضرت موسیٰ سے کلام فرمایا۴؎ ایک اور صاحب بولے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام الله کا کلمہ اس کی روح ہیں۵؎ ایک دوسرے نے کہا آدم کو الله نے برگزیدہ کرلیا ۶؎ تب ان کے پاس رسول الله صلی الله علیہ وسلم تشریف لائے ۷؎ اور فرمایا کہ ہم نے تمہاری گفتگو اور تمہارا تعجب کرنا سنا۸؎ یقینًا ابراہیم الله کے خلیل ہیں اور وہ ایسے ہی ہیں اور موسیٰ علیہ السلام راز کی بات کرنے والے ہیں ۹؎ واقعی وہ ایسے ہی ہیں اور عیسیٰ علیہ السلام الله کی روح اور کلمہ وہ ایسے ہی ہیں،آدم کو الله نے چن لیا واقعی وہ ایسے ہی ہیں ۱۰؎ مگر خیال رکھو کہ میں الله کا محبوب ہوں۱۱؎ فخریہ نہیں کہتا قیامت کے دن حمد کا جھنڈا میں ہی اٹھائے ہوں گا جس کے نیچے آدم اور ان کے سواء ہوں گے فخریہ نہیں کہتا میں پہلا شفاعت کرنے والا اور پہلا مقبول الشفاعت قیامت کے دن میں ہوں فخریہ نہیں کہتا میں پہلا وہ شخص ہوں جو جنت کی زنجیر ہلائے گا ۱۲؎ تب الله کھولے گا پھر اس میں مجھے داخل کرے گا۱۳؎ میرے ساتھ فقراء مسلمان ہوں گے۱۴؎ فخریہ نہیں کہتا میں سارے اگلے پچھلوں میں الله پر زیادہ عزت والا ہوں۱۵؎ فخریہ نہیں کہتا۔ (ترمذی،دارمی)
شرح
۱؎ مسجد نبوی شریف میں بیٹھے یا کسی اور جگہ یوں ہی آپس میں بات چیت کرنے کے لیے۔دیکھو حضرات صحابہ کے دن رات کی آپس کی گفتگو کیسی ہوتی تھی اور ان کی مجلسیں کیسی پیاری ہوا کرتی تھیں،ہماری مجلسیں غیبت بہتان،کسی کے خلاف اسکیم سازی کی ہوتی ہیں مگر وہ مجلسیں دینی ہوتی تھیں۔ ۲؎ اس وقت حضور انور ان حضرات سے قریب تو ہوئے مگر ان پر ظاہر نہ ہوئے ورنہ وہ حضرات اپنی گفتگو بند کردیتے۔ معلوم ہوا کہ آقا اپنے غلاموں کی بات چیت چھپ کر سن سکتا ہے اور اس کی اصلاح بھی کرسکتا ہے،یہ تجسس نہیں بلکہ اصلاح اور تبلیغ ہے۔تجسس کہتے ہیں کسی کی عیب جوئی کرنا یہ ممنوع ہے،رب فرماتاہے:"وَ لَا تَجَسَّسُوۡا"۔ ۳؎ ان حضرات کی گفتگو اس بارے میں تھی کہ کون نبی افضل ہیں۔بعض نے کہا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں کیونکہ انہیں الله نے خلیل بنایا،رب فرماتاہے:"وَاتَّخَذَ اللہُ اِبْرٰہِیۡمَ خَلِیۡلًا"خلیل کے معنی اور خلیل وحبیب میں فرق ان شاءاﷲ ابھی ہم عرض کرتے ہیں۔ ۴؎ یعنی الله تعالٰی نے موسیٰ علیہ السلام سے ان کی زندگی شریف میں کوہ طور پر بغیر واسطہ فرشتہ کلام کیا اور کئی بار کیا اسی لیے ان کا لقب ہے کلیم الله لہذا وہ ہی تمام نبیوں سے افضل ہونے چاہئیں۔خیال رہے کہ کلیم کے معنی ہیں کہ باربار کلام فرمانا،الله تعالٰی نے آپ سے پہلے تو عطا نبوت کے وقت کلام کیا"وَمَا تِلْکَ بِیَمِیۡنِکَ یٰمُوۡسٰی"پھر بارہا انہیں کوہ طور پر بلاکر کلام فرمایا،یہ بیداری میں تھا باقی نبیوں سے ایسے بےواسطہ کلام نہ ہوا۔مگر خیال رہے کہ یہ کلام تھا حجابانہ،ہمار ے حضور سے معراج میں ملے،بےحجابانہ کلام کیا،وہاں دیدار کے ساتھ گفتار تھی"فَکَانَ قَابَ قَوْسَیۡنِ اَوْ اَدْنٰی"۔ ؎ طور اور معراج کے قصے سے ہوتا ہے عیاں ان سے پردہ تھا خدا کا آپ سے پردہ نہ تھا ۵؎ یعنی عیسیٰ علیہ السلام کو رب نے ذاتی خوبی یہ بخشی کہ آپ کی پیدائش مرد یا عورت کے نطفہ سے نہیں ہوئی بغیر واسطۂ نطفہ،رب نے حضرت مریم کے پیٹ شریف میں بذریعہ جبریل علیہ السلام کے دم کے آپ کا جسم بنایا،چونکہ آپ روح الامین کے دم سے پیدا ہوئے اس لیے آپ کا لقب روح الله ہے اور چونکہ حضرت جبریل علیہ السلام نے ایک کلمہ کہہ کر دم کیا تھا اس لیے آپ کا لقب کلمۃ الله ہے۔اسی لیے آپ کلمہ کن فرما کر مردے میں روح ڈال دیتے تھے،بیمار اچھے کردیتے تھے کیونکہ آپ روح الامین کے ایک کلمہ کے ذریعہ پیدا ہوئے اس لیے چاہیے کہ آپ تمام نبیوں سے افضل ہوں۔ ۶؎ یعنی الله تعالٰی نے چند خصوصیتوں میں آدم علیہ السلام کو ممتاز فرمایا ،آپ کو ابو البشر بنایا،آپ کو ساری چیزوں کے نام بتائے، آپ کو فرشتوں سے سجدہ کرایا،آپ کو اپنا خلیفہ بنایا،آپ کو سارے نبیوں کا والد بنایا اس لیے آپ ہی افضل ہونے چاہئیے تھے ان بزرگوں میں کسی نے اپنے محبوب صلی الله علیہ وسلم کے فضائل کا ذکر نہ کیا مگر ؎ ذکر سب پھیکے جب تک نہ مذکور ہو نمکین حسن والا ہمارا نبی ۷؎ یعنی اب حضور انور ان حضرات کے سامنے تشریف لائے اگر پہلے ہی ظاہر ہوجاتے تو وہ حضرات اس آزادی سے گفتگو نہ کرسکتے تھے۔الحمدﷲ کہ ان حضرات کے دلائل بھی ہمارے سامنے آگئے اور حضور انور کا فیصلہ بھی سامنے آگیا اب تاقیامت یہ فرمان عالی مسلمانوں کے لیے مشعل راہ رہے گا۔ ۸؎ عجب سے مراد ہے ان حضرات کا ان انبیاءکرا م کے درجات عالیہ پر تعجب و حیرت کرنا اور انہیں افضل سمجھنا،وجہ فضیلت میں گفتگوکرنا۔ ۹؎ نجی بنا ہے نجوی سے بمعنی تنہائی میں خفیہ بات کرنا یعنی سرگوشی۔چونکہ موسیٰ علیہ السلام رب تعالٰی سے طور پر بالکل تنہائی میں کلام کرتے تھے اس لیے آپ کو نجی الله فرمایا،آپ کا لقب کلیم الله بھی ہے اور نجی الله بھی۔ ۱۰؎ سبحان الله! یہ ہے حضور انور کا انصاف والا کلام کسی کی شان کا انکار نہیں فرماتے بلکہ ان حضرات کی یہ شانیں حضور انور نے ہی دنیا کو بتائیں اور ان کے اوصاف عالم میں مشہور کیے۔جس پیغمبر کی جتنی شانیں حضور نے مشہور فرمادیں ان کی صرف اتنی ہی شانیں مشہور ہوئیں،جس نبی کا نام نہ بتایا ان کے نام دنیا سے گم ہوگئے،جن کے اوصاف کا ذکر نہ کیا ان کے اوصاف گم ہوکر رہ گئے۔ مصرع شان یوسف جو بڑھی وہ بھی اس در سے بڑھی ۱۱؎ یعنی میں ان تمام مذکورہ صفات کا جامع ہوں کیونکہ الله کا حبیب ہوں،میں خلیل بھی ہوں،کلیم بھی،مشرف بھی ہوں اس کے ساتھ حبیب بھی ہوں۔(مرقات)خیال رہے کہ خلیل و حبیب میں چند طرح فرق ہے: (۱)خلیل بنا ہے خلت سے بمعنی حاجت،حبیب بنا ہے حب سے یعنی محبت بمعنی اسم فاعل بھی ہے اور اسم مفعول بھی یعنی محب و محبوب۔خلیل وہ جو رب سے محبت کرے حاجت سے،حبیب وہ جو رب سے محبت کرے بغیرکسی حاجت کے یعنی طالب ذات ہو(۲)خلیل وہ جو مرید ہو طالب ہو،حبیب وہ جو مراد ہو،مطلوب ہو،مجذوب ہو(۳)خلیل وہ جو رب کی رضا چاہے،حبیب وہ کہ رب تعالٰی اس کی رضا چاہے"وَ لَسَوْفَ یُعْطِیۡکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی"اور"فَلَنُوَ لِّیَنَّکَ قِبْلَۃً تَرْضٰىہَا"(۴)خلیل وہ جو رب کی مغفرت و رحمت کا امیدوار ہو،حضرت ابراہیم نے کہا تھا"اَطْمَعُ اَنۡ یَّغْفِرَ لِیۡ"،حبیب وہ کہ رب تعالٰی اسے اپنی رحمت کا یقین دلائے"لِیَغْفِرَ لَکَ اللہُ مَا تَقَدَّمَ مِنۡ ذَنۡۢبِکَ" (۵) خلیل وہ جو اپنا ذکر خیر باقی رکھنے کی درخواست کرے"وَاجْعَلۡ لِّیۡ لِسَانَ صِدْقٍ فِی الۡاٰخِرِیۡنَ"،حبیب وہ جس کا ذکر رب تعالٰی بلند کرے"وَ رَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ"بلکہ اپنے نام کے ساتھ ان کا نام ملائے(۶)خلیل وہ جو رب سے جنت مانگے"وَاجْعَلْنِیۡ مِنۡ وَّ رَثَۃِ جَنَّۃِ النَّعِیۡمِ"،حبیب وہ جسے رب جنت دوزخ بلکہ عالم کثرت کا مالک بنادے"اِنَّاۤ اَعْطَیۡنٰکَ الْکَوْثَرَ"۔ (مرقات) (۷)کلیم وہ جو رب سے کلام کرنے طور پر جائے،حبیب وہ جسے رب کلام کرنے کے لیے عرش پر بلائے(۸)خلیل وہ جو باہر کا دوست ہو،حبیب وہ جو درون سرا ہو۔چنانچہ قیامت میں حضرت خلیل فرمائیں گے کنت خلیلا من وراء ؎ تم تو ہو مغز اور پوست اور ہیں باہر کے دوست تم ہو درون سرا تم پہ کروڑوں درود (۹)کلیم وہ جو تجلی صفات کی جھلک کی تاب نہ لائے"وَ خَرَّ مُوۡسٰی صَعِقًا"،حبیب وہ جو عین ذات کبریا دیکھے اور مسکرائے ؎ موسیٰ ز ہوش رفت بہ یک پر تو صفات تو عین ذات می نگری درتبسمی (۱۰)کلیم وہ جو جس کی راز دارانہ گفتگو محبوب کو سنا دی جاوے،حبیب وہ جس سے ہمکلامی کی باتیں کسی کو نہ بتائی جاویں(۱۱)کلیم وہ جس کا عصا غضب کا اژدھا ہو،حبیب وہ جس کا عصا گرتوں کا سہارا ہو ؎ عصاءکلیم اژدھائے غضب تھا گرتوں کا سہارا عصاء محمد (۱۲)کلیم الله وہ جو رب سے عرض کرے"اَرِنِیۡۤ"اور رب فرمائے"لَنۡ تَرٰىنِیۡ"،حبیب الله وہ جسے رب تقاضوں سے بلائے اپنا دیدار دکھائے ان کو یامحمد فرمائے ؎ تو بدیں جمال و خوبی سر عرش گر خرامی ارنی بگوید آں کس کہ بگفت لن ترانی (۱۳)روح الله وہ کہ جب اس کی پاک ماں کو تہمت لگے تو اس کے بچپن شریف کی میٹھی پیاری باتوں کے ذریعہ اس طیبہ طاہرہ کی عصمت بیان کی جائے یعنی اس کا گواہ بچہ ہو،حبیب وہ کہ جب اس کی زوجہ طیبہ طاہرہ کو تہمت لگے تو خود خالق گواہی دے(۱۴)روح الله وہ جس کا دم بے جان جسموں کو چند روز عارضی زندگی بخشے مگر حبیب الله وہ جس کا نام بے جان مردہ دلوں کو دائمی زندگی بخشے اور اس کا یہ فیض تاقیامت جاری رہے(۱۵)روح الله وہ جو مرے ہوئے انسانوں حیوانوں کو زندہ کرے،حبیب الله وہ جو خشک لکڑیوں کنکروں کو زندگی اور گویائی بخش کر ان سے اپنا کلمہ پڑھوائے(۱۶)صفی الله وہ جنہیں ایک بار فرشتے سجدہ کریں،حبیب الله وہ جن پر ہمیشہ الله تعالٰی اور فرشتے درود بھیجیں (۱۷)صفی الله وہ جو اجسام کے والد ہیں،حبیب الله وہ ارواح کے والد ہیں(۱۸)صفی الله وہ جو سارے انسانوں کے والد ہیں،حبیب الله وہ جو سارے عالم کی اصل ہیں جن کے نور سے عرش و فرش لوح قلم وغیرہ بنے(۱۹)صفی الله وہ جنہیں الله نے چیزوں کا نام سکھایا"وَعَلَّمَ اٰدَمَ الۡاَسْمَآءَ کُلَّہَا"،حبیب الله وہ جسے رحمن نے قرآن سکھایا " اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ"۔ ۱۲؎ حلق جمع ہے حلقہ کی اور حلقہ کہتے ہیں چھلے یا زنجیر کی کڑی کو،یہ کڑیاں اور چھلے مل کر زنجیر بنتی ہے،زنجیر ہلانے سے مراد ہے دروازہ کھلوانا اپنی آمد کی اطلاع دے کر۔ ۱۳؎ ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ سارے نبی اور ان کی امتیں جنت کے دروازہ پر حضور انور سے پہلے پہنچ جائیں گے، حضور انور اپنے گنہگاروں کو بخشوانے،نیکیوں کے ہلکے پلے بھاری کرانے،صراط پر گرتوں کو سنبھالنے میں مصروف ہوں گے مگر دروازہ جنت بند ہوگا داروغہ جنت دروازے کے اندر ہوگا کسی کو زنجیر ہلانے بجانے کی جرأت نہ ہوگی،ہمت و جرأت والے نبی کا انتظار ہوگا حضور پہنچ کر دروازہ کھلوائیں گے۔ ۱۴؎ اس فرمان عالی کی شرح وہ حدیث ہے کہ فقراء بمقابلہ اغنیاء کے پانچ سو سال پہلے جنت میں جائیں گے۔خیال رہے کہ یہاں فقیر سے مراد محتاج الی الخلق نہیں،یہ فقیری تو نفس کی ہے جس سے حضور انور نے پناہ مانگی ہے بلکہ اس سے مراد محتاج الی الله جسے حضور انور نے اپنے لیے فخر فرمایا الفقر فخری۔صوفیاء کہتے ہیں کہ فقیر وہ ہے جو عدم کے وقت صابر ہے وجود کے وقت باذل و سخی ہو۔(مرقات)لہذا اس سے لازم یہ نہیں آتا کہ حضرت عثمان غنی جنت میں آخر میں پہنچیں گے کیونکہ وہ مال کے غنی تھے دل کے فقر والے۔ ۱۵؎ یہ فرمان عالی گذشتہ سارے مضمون کا تتمہ یا اس کی وجہ ہے الله تعالٰی نے حضور جیسا عزت والا کوئی پیدا ہی نہیں کیا،حضور نے جس پر نگاہ کرم کردیں وہ عزت والا ہوجاوے،خدا تعالٰی کے بعد حضور ہی عزت والے ہیں۔