Brailvi Books

مرآۃ المناجیح شرح مشکٰوۃ المصابیح جلد ہشتم
21 - 952
حدیث نمبر 21
روایت ہے حضرت ابو سعید سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہ میں قیامت کے دن اولاد آدم کا سردار ہوں ۱؎ فخریہ نہیں کہتا ۲؎  اور میرے ہاتھ میں حمد کا جھنڈا ہو گا۳؎ فخریہ نہیں کہتا،اس دن کوئی نبی آدم علیہ السلام اور ان کے سوا ایسا نہ ہوگا جو میرے جھنڈے تلے نہ ہو۴؎ میں ان میں پہلا ہوں جن سے زمین کھلے گی ۵؎  فخریہ نہیں فرماتا۔ (ترمذی)
شرح
۱؎ لغت میں سید بمعنی سردار پیشوا آتا ہے اس لیے قرآن مجید نے زلیخا کے خاوند یعنی عزیز مصر کو جو کافر تھا زلیخا کا سید فرمایا"وَاَلْفَیَا سَیِّدَہَا لَدَا الْبَابِ"۔مگر شریعت کی اصطلاح میں سید بمعنی دستگیر حاجت روا مشکل کشا آتا ہے۔حضور قیامت کے دن سارے انسانوں بلکہ ساری مخلوق کے فریاد رس بھی ہوں گے اور مشکل کشا بھی حاجت روا بھی جس کو ہم بحوالہ مرقات اسی باب کی تیسری حدیث کی شرح میں عرض کرچکے۔اس وقت سب حضور کو دافع البلاء،مشکل کشا،حاجت روا مان لیں گے اگرچہ آج بھی حضور سرکار اسی معنی سے سید ہیں مگر آج بعض لوگ یہ بات نہیں مانتے قیامت میں سب مان لیں گے اس لیے یوم القیامت فرمایا،جیسے رب فرماتاہے:"لَہُ الْحَمْدُ فِی الْاٰخِرَۃِ"۔

۲؎  اپنی شیخی و ناموری کے لیے اپنی بڑائی بیان کرنا فخر ہے،الله تعالٰی کی نعمت کے اظہار کے لیے بیان کرنا شکر ہے۔ فخر منع ہے،رب فرماتاہے:"لَا تَفْرَحْ اِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ الْفَرِحِیۡنَ"۔اور الله کے شکر کے لیے اپنے فضائل بیان کرنا عبادت ہے،رب فرماتا ہے: "وَ اَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ"یوسف علیہ السلام نے فرمایا تھا"اِنِّیۡ حَفِیۡظٌ عَلِیۡمٌ"۔سرکار فرمارہے ہیں کہ میں اپنے فضائل فخریہ نہیں بلکہ شکریہ کے طور پر بیان فرمارہا ہوں۔خیال رہے کہ الله تعالٰی اور حضور کے صفات جاننے ماننے کا نام ایمان ہے۔اگر حضور اپنے فضائل بیان نہ فرماتے تو ہم حضور کو کیسے پہچانتے اس لیے الله تعالٰی نے اپنے صفات قرآن مجید میں بیان کیے اور حضور نے اپنے فضائل بیان فرمائے تاکہ ہم کو ایمان ملے،تو یہ فرمان ہم کو ایمان دینے کے لیے ہیں لہذا یہ بھی تبلیغ ایمان ہے۔صوفیاء فرماتے ہیں کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ میں ان صفات پر فخر نہیں کرتا بلکہ صفات دینے والے رب پر فخرکرتا ہوں یا میں ان صفات پر فخر نہیں فرماتا بلکہ مجھے اپنی عبدیت،عبودیت،عبادت اور نیاز مندی پر فخر ہے۔(مرقات)خیال رہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے بعض صحابہ کی ان کے سامنے تعریفیں فرمائیں تاکہ انہیں اور زیادہ عبادات کا شوق ہو اور یہ بھی حکم دیا کہ کسی تعریف اس کے سامنے نہ کرو تاکہ اس میں فخر پیدا نہ ہوجائے۔حضرت عمر فرماتے ہیں المدح ھو الذبح غرض کہ لوگ مختلف ہیں۔(مرقات)

۳؎  اس فرمان عالی کے بہت معنی کیے گئے ہیں: ایک یہ کہ واقعی ایک جھنڈے کا نام لواء الحمد ہے،یہ جھنڈا الله تعالٰی کی اعلٰی نعمت ہے جو صرف حضور کو عطا ہوگی کیونکہ الله کی حمد سب سے افضل ہے۔دوسرے یہ کہ قیامت میں سب سے پہلے سجدہ میں گر کر الله تعالٰی کی بے مثال حمد حضور ہی کریں گے،ایسی حمد جو اس سے پہلے کسی نے نہ کی ہو اور علانیہ حمدبھی حضور ہی کریں گے حمد کے جھنڈے سے یہ ہی مراد ہے یعنی اعلان حمد۔تیسرے یہ کہ حمد سے مراد ہے الله تعالٰی کا حضور کی حمد فرمانا اور آپ کی حمد کا اعلان فرمانا کہ تمام دنیا اور خود خدا تعالٰی حضور کی حمد فرمائے،آپ کی حمد کا اعلان کرے۔قیامت کا حساب صرف چار گھنٹہ میں ہوگا باقی یہ پچاس ہزار برس کا دن حضور کی مدح خوانی میں صَرف ہوگا،رب فرماتاہے:"عَسٰۤی اَنۡ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوۡدًا"ان ہی وجوہ سے حضور انور کا نام احمد،محمد اور محمود ہے بلکہ حضور کی امت کا نام ہے حمادون کیونکہ یہ حضور محمد کی امت ہے    ؎

فقط اتنا سبب ہے انعقادِ بزم محشر کا 		کہ ان کی شان محبوبی دکھائی جانے والی ہے

۴؎ اگر پہلے جھنڈے سے مراد یہ ظاہری جھنڈا ہے تو یہاں اس کے معنی یہ ہیں کہ سارے نبی میرے اس جھنڈے تلے جمع ہوکر حمد الٰہی کریں گے،ہم ان کے امام ہوں گے اور اگر وہاں جھنڈے سے مراد تھی حمد الٰہی تو مطلب یہ ہے کہ سب ہمارے بتانے سکھانے سے حمد الٰہی کریں گے اور اگر وہاں مراد تھی حضور کی حمد تو مطلب یہ ہے کہ رب تعالٰی بھی ہماری حمد کرے گا اور ساری مخلوق حتی کہ انبیاءکرام بھی ہماری حمد کریں گے۔

۵؎ اس کی شرح پہلے ہوچکی کہ دوسرا نفخ صور ہونے پر سب سے پہلے حضور انور بیدار ہوں گے بعد میں ترتیب وار اور لوگ۔
Flag Counter