۱؎ یعنی جیسے گذشتہ نبیوں نے اپنی سرکش قوموں کے لیے بد دعائیں کیں اور ان پر عام عذاب آئے حتی کہ زمانہ نوحی میں روئے زمین پر کوئی کافر نہ رہا الحمدﷲ میں تمہارے لیے بددعا نہ کروں گا۔اولًا تو اس لیے کہ میں رحمۃ للعالمین ہوں کسی پر بددعا نہیں کرتا،دوسرے اس لیے کہ میری قوم گذشتہ قوموں کی طرح سرکش نہیں میری قوم میں اکثر لوگ مؤمن ہوجائیں گے،بعض کافر مریں گے مگر ان کی وجہ سے عام بددعا نہ کروں گا۔(مرقات و اشعہ)
۲؎ یعنی میری امت میں بڑے بڑے بیدین پیدا ہوں گے مگر وہ کبھی اہل حق پر غالب نہیں آسکیں گے اگرچہ بظاہر بیدین بڑے سازوسامان سے لیس ہوں گے اور اہل حق بظاہر بے سامان ہوں گے مگر ہمیشہ غلبہ اہل حق کو ہی رہے گا آج تک اسی کا ظہور ہورہا ہے۔اہلِ سنت کے پاس ترقی کے اسباب بہت کم ہیں اور اہل باطل کے پاس ہر طرح کے اسباب ہیں مگر غلبہ اہل سنت ہی کا ہے۔
۳؎ یعنی جیسے گذشتہ امتیں جب گمراہ ہوتی تھیں تو ساری کی ساری گمراہ ہوجاتی تھیں ان کے پاس کتاب الٰہی اور انبیاء کرام کی تعلیم باقی نہیں رہتی تھی میری امت میں ایسا نہ ہوگا ان میں گمراہ فرقے بہت پیدا ہوں گے مگر ایک فرقہ حق پر بھی رہے گا۔اس فرقہ کی پہچان دو بیان کی گئیں ہیں: ایک یہ کہ ما علیہ انا واصحابی میری اور میرے صحابہ کی سنت کے متبع ہوں گے۔دوسرے یہ کہ جماعت ان ہی کی زیادہ ہوگی اتبعوا السواد الاعظم،الحمدلله!۔تیسرے یہ کہ اس فرقے میں اولیاء اللہ ہونگے،رب فرماتاہے:"وَکُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ"اور فرماتاہے:"صِرٰطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ"۔یہ تینوں چیزیں اسی فرقہ اہلسنت والجماعت میں ہیں،یہ جماعت برحق ہے۔اولیاء اللہ وہ ہیں جو مؤمن ہوں اور متقی ہوں اور لوگ انہیں خواہ مخواہ ولی مانیں ولی کہیں،رب تعالیٰ فرماتاہے:"الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَکَانُوۡا یَتَّقُوۡنَ لَہُمُ الْبُشْرٰی"الخ تمام زندہ ولی اور اولیاءاللہ کے آستانہ سب اہل سنت میں ہیں۔