روایت ہے حضرت خباب ابن ارت سے ۱؎ فرماتے ہیں ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی تو اسے بہت دراز فرمایا ۲؎ صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ آپ نے ایسی نماز پڑھی جو کبھی نہ پڑھتے تھے۳؎ فرمایا ہاں یہ نماز رغبت اور ڈر کی ہے۴؎ میں نے اس میں اللہ سے تین چیزیں مانگیں تو اس نے مجھے دو عطا فرمادیں اور ایک سے منع فرمادیا۵؎ میں نے اس سے مانگا کہ میری امت کو قحط سے ہلاک نہ فرمائے اس نے مجھے عطا فرمادیا اور میں نے اس سے مانگا کہ ان پر ان کا غیر دشمن مسلط نہ فرمائے۶؎ مجھے عطا فرما دیا اور میں نے اس سے مانگا کہ ان کے بعض کو بعض کی سختی نہ چکھائے اس سے مجھے منع فرمادیا ۷؎ (ترمذی،نسائی)
شرح
۱؎ آپ مشہور صحابی ہیں،پرانے مؤمن ہیں،حضور کے دار ارقم میں تشریف لے جانے سے پہلے اسلام سے مشرف ہوئے،کفار کی ایذا پر بہت صبر کیا،بدر میں شریک ہوئے،کوفہ میں سب سے پہلے وہ مسلمان ہیں جن کی وفات ہوئی،حضرت علی نے آپ کی نماز جنازہ پڑھی،کوفہ میں ہی آپ کا مزار شریف ہے۔(اشعہ) ۲؎ یا تو اس طرح دراز فرمایا کہ اس نماز کے سارے ارکان دراز کئے یا اس طرح کہ اس میں دعا دراز مانگی،دیکھو مرقات۔یا سجدہ دراز کیا اور سجدہ میں دعا طویل مانگی،نوافل کے سجدہ میں دعا مانگنا جائز ہے یہ نماز نفل ہی تھی جو اس کے لیے ادا کی گئی تھی۔ ۳؎ یعنی اس وقت آپ نماز کبھی نہ پڑھتے تھے ایسی دراز اور لمبی نماز آپ کبھی نہ پڑھتے تھے اس صورت میں دن کی نماز مراد ہوگی کیونکہ حضور انور تہجد کی نماز تو بہت ہی دراز پڑھتے تھے۔ ۴؎ یعنی دوسری نمازوں میں یا امید غالب ہوتی ہے یا خوف الٰہی غالب مگر اس نماز میں امید و خوف دونوں کامل طور پر جمع تھے۔جب نماز ایسی میسر ہو تو اسے خوب دراز پڑھنا چاہیے تاکہ خوف و امید کا کمال دیر تک رہے۔خیال رہے کہ یہاں امید و خوف سے مراد ہے اپنی امت کے متعلق امید و خوف،ورنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی محبوبیت مقبولیت کا یقین ہے وہاں نہ محض امید کی گنجائش ہے نہ خوف کی۔یا مطلب یہ ہے کہ اس نماز میں جو دعا مانگی اس کی قبولیت کی امید تھی اور انکار کا خطرہ،چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ دو دعائیں قبول ہوئیں اور تیسری دعا سے روک دیا گیا۔ ۵؎ منع فرمانے کے وہ ہی معنی ہیں کہ مجھے یہ دعا مانگنے سے منع فرما دیا اس میں دعا کا رد نہیں ہے،رد دعا اور چیز ہے منع عن الدعاء کچھ اور چیز،منع میں محبوبیت کی شان ظاہر ہوتی ہے۔ ۶؎ غیر سے مراد کفار ہیں اور مسلط کرنے سے مراد ہے مسلمانوں پر اس طرح چھا جانا کہ مسلمانوں کو وہ بالکل ہلاک کردیں کہ کوئی مسلمان نہ بچے جیساکہ پہلےگزرا،آج تک نہ تو ایسا ہوا ہے اور نہ ان شاءالله ایسا ہوگا۔ ۷؎ اس کی شرح پہلے ہوچکی ہے کہ مسلمانوں میں آپس کی جنگیں تو رہیں گی۔چنانچہ خلافت عثمانی کے آخر دور میں مسلمانوں میں جنگ ہوئی سب سے پہلے حضرت عثمان غنی شہید کیے گئے،اس دن کی میان سے نکلی ہوئی تلوار آج تک میان میں نہ گئی،ہر دور میں مسلمان آپس میں لڑتے بھڑتے ہی رہے،خلافت حیدری میں مسلمانوں کا آپس میں جو کشت و خون ہوا وہ سب کو معلوم ہے،تمام جنگوں میں فریقین کے قریبًا اسّی ہزار مسلمان قتل ہوئے۔معالم التنزیل میں حضرت جابر سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی"قُلْ ہُوَ الْقَادِرُ عَلٰۤی اَنۡ یَّبْعَثَ عَلَیۡکُمْ عَذَابًا مِّنۡ فَوْقِکُمْ"تو حضور انور نے عرض کیا اعوذ بوجھك پھر فرمایا گیا"اَوْ مِنۡ تَحْتِ اَرْجُلِکُمْ"عرض کیا اعوذ بوجھك پھر فرمایا"اَوْ یَلْبِسَکُمْ شِیَعًا وَّ یُذِیۡقَ بَعْضَکُمۡ بَاۡسَ بَعْضٍ"حضور انور نے عرض کیا الٰہی ھذا اھون ھذا ایسر الٰھی آسمانی عذاب اور زمینی عذابوں سے یہ آپس کی جنگوں کا عذاب آسان ہے۔