مرآۃ المناجیح شرح مشکٰوۃ المصابیح جلد ہشتم |
روایت ہے حضرت عطاء ابن یسار سے ۱؎ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبدالله ابن عمرو ابن عاص سے ملاقات کی میں نے کہا مجھے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وہ صفات سناؤ جو توریت میں مذکور ہیں۲؎ انہوں نے کہا ہاں الله کی قسم حضور توریت میں بعض ان صفات سے موصوف ہیں جو قرآن میں موجود ہیں۳؎ وہاں ارشادہے اے نبی۴؎ ہم نے تم کو گواہ ۵؎ بشارت دینے والے ڈرانے والا۶؎ بے پڑھوں کا حفاظت کرنے والا پناہ بناکر بھیجا۷؎تم میرے بندے اور رسول ہو میں نے تمہارا نام متوکل رکھا۸؎ نہ سخت دل نہ سخت زبان نہ بازاروں میں شورکرنے والے ۹؎ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے بلکہ معافی و بخشش کردیتے ہیں۱۰؎ الله انہیں وفات نہ دے گا حتی کہ ان کے ذریعہ ٹیڑھے دین کو سیدھا کردے گا ۱۱؎ اس طرح کہ لوگ کہیں گے لا الہ الا الله۱۲؎ اور اس سے الله اندھی آنکھیں بہرے کان اور ڈھکے دل کھول دے گا۱۳؎ (بخاری)یوں ہی اسے دارمی نے بروایت عطاءعن عبدالله ابن سلام بھی اسی طرح روایت کیا اور حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث کہ ہم آخر ہیں باب الجمعۃ میں ذکر کردی گئی۔
شرح
۱؎ عطاء ابن یسار مشہور تابعی بھی ہیں اور آپ حضرت ام المؤمنین میمونہ رضی الله عنہا کے آزادکردہ غلام ہیں،حضرت عبدالله ابن عمرو ابن عاص نے توریت علماء یہود سے سیکھی تھی۔ ۲؎ اس سے معلوم ہوا کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کی نعت شریف پڑھنی اور دوسرے سے پڑھوا کر سننی دونوں سنت صحابہ ہیں اور گذشتہ آسمانی کتابوں کے نعت والے مضامین یادکرنا لوگوں کو سنانا بھی سنت ہے،پچھلی کتابوں میں حضور کی نعت تلاش کرنی بھی سنت ہے،بعض حضرات نے ہندو شاعروں کے نعتیہ کلام کتابی شکل میں شائع کیے ہیں یہ سب اس عمل سے ماخوذ ہیں۔ ۳؎ یعنی توریت شریف میں بزبان عبرانی حضور انور کے بعض صفات ایسے مذکور ہیں جو قرآن کریم میں مذکور صفات کے بالکل مطابق ہیں۔ ۴؎ جیسے قرآن مجید میں گذشتہ نبیوں کو پکارا گیا ہے ایسے ہی توریت شریف میں حضور صلی الله علیہ وسلم کو بھی پکارا گیا تھا۔جس آیت توریت کا یہ ترجمہ ہے اس میں حضور انور کو پکار کر حضور کے اوصاف بیان کیے گئے اور مخلوق کو سنائے گئے ہیں،کہیں توریت میں اہل کتاب کو پکار کر حضور کے اوصاف سنائے گئے۔ ۵؎ یہ آیتِ کریمہ جزوی طور پر قرآن مجید میں موجود ہے،اس کی تفسیر ہماری کتاب شان حبیب الرحمن میں دیکھو۔شاہد یا بنا ہے شہود سے تو اس کے معنی ہیں حاضر،یا مشاہدہ سے تو معنی ہیں ناظر،یا شہادت سے تو معنی ہیں گواہ۔حضور دنیا میں الله کی ذات و صفات سارے عالم غیب کے گواہ ہیں،پچھلے نبی سن کر گواہ تھے حضور انور عینی گواہ کہ سب کچھ دیکھ کر آئے اور گواہی دی اسی لیے آپ کے بعد کوئی نبی نہیں کہ عینی گواہ پر گواہی ختم ہوجاتی ہے،سمعی گواہ پر عینی گواہ کا انتظار رہتا ہے۔آخرت میں حضور رب کے سامنے اپنی امت کے عقائد اعمال اقوال کے عینی گواہ،سارے نبیوں انکی امتوں کے ہر حال کے عینی گواہ ہیں،نیز دنیا میں لوگوں کے انجام کے گواہ ہیں کہ کون مؤمن مرے گا کون کافر،مؤمنوں میں کون صدیق ہے کون فاروق،کون کس عہدے پر ہے۔غرض کہ حضور کی گواہی بہت اعلیٰ اور جامع ہے۔شاہد بمعنی محبوب یعنی عشاق کے دل میں رہنے والے بھی ہیں۔ ۶؎ سارے نبیوں نے سن کر بشارت دی اور ڈرایا حضور انور نے جنت و دوزخ کی سیر فرماکر ہرشخص کا ٹھکانہ مکان جگہ دیکھ کر بشارت دی اور ڈرایا۔یہ فرق ہے حضور کی بشارت و نذارت اور دوسرے نبیوں کی بشارت و نذارت میں۔ ۷؎ حضور صلی الله علیہ وسلم اپنی امت کے لیے ایک مضبوط قلعہ ہیں کہ آپ کے دامن میں امت پناہ لیے ہوئے ہے۔امیین کے معنی یا تو ہیں امّ القریٰ والے یعنی مکہ کے لوگ یا بے پڑھے لوگ کیونکہ اہل عرب عمومًا بے پڑھے تھے اس زمانہ میں،یا اس کے معنی ہیں نبی امّی والے یعنی ساری امت کے رسول الله،یہ تیسرے معنی بہت موزوں ہیں کہ اس میں ساری امت داخل ہے۔(مرقات)حضور کا پناہ ہونا توریت میں مذکور تھا ؎ یارسول الله بدرگاہت پناہ آور دہ ام ہمچو کا ہے آمدم کو ہے گناہ آوردہ ام ۸؎ حضور انور بھی الله کے عبد ہیں اور ہم بھی الله کے عبدوبندے ہیں مگر دونوں کی عبدیت میں فرق یہ ہے کہ ہم کو ناز ہے کہ ہم الله کے بندے ہیں اور دستِ قدرت کو ناز ہے کہ حضور انور میرے بندے ہیں"ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرْسَلَ رَسُوۡلَہٗ"الخ ڈاکٹر اقبال کہتے ہیں ؎ عبد دیگر عبدہٗ چیزے دگر ایں سراپا انتظار او منتظر سارے بندے الله کی رحمت کا انتظار کرتے ہیں اور الله کی رحمت حضور انور کا انتظار کرتی ہے۔توریت میں حضور کا نام متوکل تھا کیونکہ حضور نے اتنا بڑا تبلیغ کا کام کیابغیر ظاہری سہارے کے۔بھائی کوئی نہیں،ماں باپ بچپن شریف میں رخصت ہوگئے،جو اقرباء تھے وہ دشمن تھے،ایسے ناسازگار حالات میں دنیا کی کایا پلٹ دینا غیبی طاقت نہیں تو اور کیا ہے۔ ۹؎ حضور جیسا نرم دل،حضور جیسا شیریں گفتار،حضور جیسا نیک کردار آسمان نے نہ دیکھا آسمان تو کیا خالق دو جہاں نے نہ دیکھا کیونکہ اس نے ایسا کوئی بندہ پیدا ہی نہیں کیا پھر دیکھنے کے کیا معنی۔حضور وہ ہیں جنہوں نے ابو سفیان ہندہ، عکرمہ،وحشی کو معاف فرمایا،لوگوں کی گالیاں سن کر دعائیں دینے والے رسول ہیں صلی الله علیہ وسلم ؎ سلام اس پرکہ جس نےخوں کےپیاسوں کوقبائیں دیں سلام اس پرکہ جس نےگالیاں سن کر دعائیں دیں حضور بازار میں تشریف لے جاتے تھے مگر وہاں شور کے لیے نہیں بلکہ تبلیغ احکام کے لیے اسی لیے یہاں سخاب کی نفی فرمائی نہ کہ ذھاب یعنی جانے کی۔ ۱۰؎ یہاں ذاتی برائی کرنے والوں کا ذکر ہے۔حضور انور نے اپنے ذاتی دشمن سے بدلہ نہ لیا معافی دی مگر دینی قومی ملکی دشمن کو معاف نہ کیا ضرور سزا دی۔وحشی عکرمہ وغیرہم کو معافی دے دی کہ وہ دشمن ذاتی تھے مگر فاطمہ مخذومیہ نے چوری کرلی تو اسے ہرگز معاف نہ فرمایا ہاتھ کٹوادیا کہ وہ دینی قانون کی مجرمہ تھی،یہ فرق ضرور خیال میں رہے۔آج ہمارا عمل برعکس ہے معافی اور بخشش میں بڑا فرق ہے،رب فرماتاہے:"اِدْفَعْ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحْسَنُ"حضور کی زندگی شریف اس آیت کی تفسیر ہے۔مرقات نے فرمایا کسی کا عیب چھپالینا مغفرت ہے اور سزا نہ دینا معافی ہے۔حضور الله تعالٰی کی صفات کے مظہر ہیں،الله تعالٰی عفو بھی ہے اور غفور بھی ہے،حضور کو یہ صفات رب نے پوری پوری عطا فرمائی ہیں۔ ۱۱؎ ٹیڑھے دین سے مراد ملت ابراہیمی ہے جس میں کفار مکہ نے زیادتی کمی کرکے اسے ٹیڑھا کردیا۔حضور صلی الله علیہ وسلم نے ان تمام برائیوں کو دور کرکے جیسی وہ ملت تھی اسے ویسا کردیا یہ ہے اس ملت کا سیدھا کرنا۔(مرآت)یہ شرح بہت اعلٰی ہے۔ ۱۲؎ لا الہ کہنے سے مراد ہے سارے اسلامی عقیدے مان لینا جیسے کہا جاتا ہے کہ نماز میں الحمد پڑھنا واجب ہے یعنی ساری سورۂ فاتحہ۔ ۱۳؎ یعنی حضور کے ذریعہ سےلوگوں کو کلمہ طیبہ نصیب ہوگا اور کلمہ طیبہ کے ذریعہ لوگوں کی اندھی آنکھیں روشن، بہرے کان سننے والے،غافل دل جاگ جائیں گے۔بعض روایات میں بھا کی بجائے بہ یعنی حضور انور کے ذریعہ یہ تین نعمتیں ان کو ملیں گی۔