Brailvi Books

مرآۃ المناجیح شرح مشکٰوۃ المصابیح جلد ہشتم
118 - 952
حدیث نمبر118
روایت ہے حضرت ابن عباس سے فرماتے ہیں کہ ضماد مکہ مکرمہ آئے اور یہ تھے ازد شنوءہ سے ۱؎  اس قسم کی ہوا سے جھاڑ پھونک کرتے تھے۲؎  انہوں نے مکہ کے بے وقوف باشندوں کو کہتے سنا کہ حضور محمد صلی اللہ علیہ وسلم دیوانہ ہیں تو بولے کہ ان صاحب کو میں دیکھ لیتا ہوں شاید کہ الله تعالٰی انہیں میرے ہاتھ پر شفا دے دیتا۳؎ فرماتے ہیں کہ وہ حضور سے ملے بولے اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں اس خلل والی ہوا سے جھاڑ پھونک کرتا ہوں کیا یہ آپ کو ہے ۴؎  تو رسول الله صلی الله علیہ و سلم نے فرمایا کہ ساری تعریفیں الله کی ہیں،ہم اس کی حمد کرتے ہیں اسی سے مدد مانگتے ہیں،جسے الله ہدایت دے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جسے وہ گمراہ کردے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں،میں گواہی دیتا ہوں کہ اکیلے الله کے سوا کوئی معبود نہیں اس کا کوئی شریک نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد الله کے بندے اس کے رسول ہیں اس کے بعد ۵؎ تب ضماد نے کہا اپنے یہ کلمات دوبارہ فرمایئے،رسول الله صلی الله علیہ و سلم نے اس کے سامنے یہ کلمات تین بار لوٹائے ۶؎ وہ بولا کہ میں نے کاہنوں کی باتیں شاعروں کے قول سنے ہیں مگر میں نے آپ کی ان باتوں کی مثل کبھی نہیں سنیں ۷؎ یہ تو سمندر کی تہہ کو پہنچی ہوئی ہیں۸؎  اپنا ہاتھ لائیے میں اسلام پر آپ کی بیعت کرتا ہوں فرمایا اس نے حضور کی بیعت کرلی ۹؎(مسلم)اور مصابیح کے بعض نسخوں میں ہے سمندر کی گہرائی میں پہنچ گئے ہیں۱۰؎  اور ابوہریرہ اور جابر ابن سمرہ کی دونوں حدیثیں کہ کسریٰ ہلاک ہوجاوے گا اور دوسری کہ ایک جماعت فتح کرے گی لڑائیوں کے باب میں بیان کردی گئیں۔ اور یہ باب دوسری فصل سے خالی ہے۔
شرح
۱؎  بعض شارحین نے کہا ہے کہ ضماد اور ضمام ایک ہی شخص کے دو نام ہیں مگر یہ صحیح نہیں ضمام ابن ثعلبہ بنی سعد ابن بکر قبیلہ سے ہیں اور ضماد ابن ثعلبہ قبیلہ ازد سے ہیں یہاں ضماد کا ذکر ہے،ضماد ابن ثعلبہ یمنی ہیں،وہاں ایک بڑا قبیلہ ہے شنوء، اس کا ایک خاندان ہے ازد،آپ ازد سے ہیں،انہیں طلب علم کا بہت شوق تھا دم منتر بھی خو ب کرتے تھے۔(اشعہ)

۲؎  یعنی دیوانوں پاگلوں پر دم کیا کرتے تھے۔سبحان الله! انہیں اسی علم نے حضور تک پہنچایا مسلمان بنادیا جیسے فرعونی جادوگروں کو ان کے علم جادو نے موسیٰ علیہ السلام تک پہنچایا اور انہیں ایمان نصیب کردیا۔معلوم ہوا کہ علم کوئی بھی برا نہیں کبھی یہ علم ایمان و معرفت کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ہوا سے مراد یا جنون ہے یا جن،اہل عرب جنات کو ہوا کہتے تھے چنانچہ فلاں کو ہوا ہوگئی جب بولتے تھے جب اس پر جنات کا خلل ہوگیا ہو۔

۳؎  سبحان الله! جارہے ہیں علاج کرنے کی نیت سے مگر حقیقتًا علاج کرانے وہ سمجھے کہ طبیب بیمار کے پاس جا رہا ہے مگر واقعۃً بیمار حکیم کے پاس پہنچ رہا تھا۔

۴؎  انہوں نے حضور انور کو ہر طرح ٹھیک دیکھ کر سمجھا کہ شاید آپ کو جنات کا دورہ پڑا کرتا ہے،اس وقت دورہ نہیں ہے اس لیے آپ ہوش میں بیٹھے ہیں تب ہی تو اس نے آپ سے پوچھا۔

۵؎  معلوم ہوتا ہے کہ حضور انور نے یہ کلمات خطبہ کے طور پر ارشاد فرمائے۔اما بعد کے بعد قرآن کریم کی تلاوت فرمانا چاہتے تھے۔ضماد کو سنانے کے لیے ضماد کو خطبہ سے ہی ایمان مل گیا قرآن مجید تک پہنچنے کی نوبت نہ آئی،انہیں کلمات کی فصاحت و بلاغت نے ضماد کا ہوش اڑا دیا،وہ وارفتگی کی حالت میں بول اٹھے کہ ایک بار یہ کلام اور سنادیجئے کلمات شاندار پھر حضورانور کی زبان سے ادا ہوئے سونے پر سہاگہ ہوگیا۔

۶؎  معلوم ہوتا ہے کہ تین بار میں خاص برکت ہے۔اعضاء وضو دھوؤ تین بار،قل ھو الله پڑھو تین بار تو پورے قرآن مجید کا ثواب،حضور دعا مانگتے تھے تین بار۔

۷؎ یعنی آپ کے اس کلام نے بتادیا کہ آپ نہ ساحر ہیں نہ شاعر بلکہ سچے رسول ہیں۔خیال رہے کہ کسی نے متکلم سے کلام کو پہچانا مگر ضماد نے کلام سے متکلم کی شان معلوم کی۔

۸؎  قاموس بنا ہے قمس سے بمعنی گہرائی اس لیے غوطہ خور کو قماس بھی کہتے ہیں غواص بھی یعنی ان پیارے کلمات کی فصاحت و بلاغت دریاء معرفت کی تہہ تک پہنچی ہوئی ہے جہاں کسی انسان کے فکر و وہم نہیں پہنچ سکتے یہ کلمات انسانی نہیں بلکہ القاء ربانی ہیں۔

۹؎  جب ضماد ایمان لاکر کفار مکہ کے پاس واپس ہوئے تو لوگوں نے ان سے پوچھا کہ کہو کیا گزری جواب دیا۔شعر

سنو اے دوستو میری سمجھ میں تو یہ آتا ہے 		کہ بے شک ان پہ سایہ ہے مگر الله کا سایہ ہے 

۱۰؎ یعنی ایک روایت میں بجائے قاموس کے ناعوس ہے دونوں کے معنی ایک ہی ہیں یعنی گہرائی یا تہہ۔خیال رہے کہ حضور انور صلی الله علیہ و سلم نے ضماد کی بات کا جواب نہ دیا اپنی صفائی نہ کی کہ میں دیوانہ نہیں ہوں لوگ غلط کہتے ہیں بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمات نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ظاہر کردی کہ جس کے منہ کے کلمات ایسے ہوں سمجھ لو کہ وہ ذات کریم کیسی ہے۔خوش نصیب تھے وہ جو سب کچھ لے گئے۔اس واقعہ سے پتہ لگا کہ بیعت ہوتے وقت مرید شیخ کے ہاتھ میں ہاتھ دے اور زبان سے بیعت کرے،دیکھو ضماد نے عرض کیا کہ حضور اپنا ہاتھ لائیں میں بیعت کروں۔بیعت چار قسم کی ہے جن میں سے ایک بیعت اسلام کی بیعت ہے۔
Flag Counter