مرآۃ المناجیح شرح مشکٰوۃ المصابیح جلد ہشتم |
روایت ہے حضر ت انس رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ و سلم ام حرام بنت ملحان کے پاس جاتے تھے ۱؎ وہ حضرت عبادہ ابن صامت کی بیوی تھیں ایک دن حضور انکے پاس تشریف لے گئے انہوں نے حضور کو کچھ کھلایا پھر بیٹھ گئیں آپ کے سر کی جوئیں دیکھنے لگیں۲؎ رسول الله صلی الله علیہ و سلم سو گئے پھر ہنستے ہوئے جاگے فرماتی ہیں میں نے عرض کیا کیا چیز آپ کو ہنسا رہی ہے یارسول الله تو فرمایا میری امت کے کچھ لوگ مجھ پر پیش کیے گئے الله کی راہ میں غازی جو اس سمندر کی فراخی میں سوار ہوں گے۳؎ جیسےتختوں پر بادشاہ یا بادشاہوں کی طرح۴؎ تختوں پر میں نے عرض کیا یارسول الله حضور الله سے دعا کریں کہ وہ مجھے بھی ان سے کرے ۵؎ حضور نے ان کے لیے دعا فرمائی ۶؎ پھر حضور نے سر رکھا اور سو گئے پھر جاگے ہنستے ہوئے تو میں نے عرض کیا یارسول الله کیا چیز حضور کو ہنساتی ہے فرمایا میری امت کے کچھ لوگ مجھ پر پیش کیے گئے الله کی راہ میں غازیانہ شان سے جیساکہ پہلی بار میں فرمایا تھا۷؎ تو میں نے عرض کیا یارسول الله حضور الله سے دعا کریں کہ مجھے ان میں سے کرے فرمایا تم پہلوں میں سے ہو۸؎ چنانچہ حضرت معاویہ کے زمانہ میں ام حرام سمندر میں سوار ہوئیں ۹؎ پھر جب سمندر سے نکلیں تو اپنی سواری سے گرگئیں اور فوت ہوگئیں۱۰؎ (مسلم، بخاری)
شرح
۱؎ آپ ام حرام بنت ملحان ابن خالد ہیں،بنی نجار قبیلہ سے ہیں،ام سلیم کی بہن ہیں لہذا حضر ت انس کی خالہ ہیں،آپ کا نام معلوم نہیں ہوسکا کنیت ہی میں مشہور ہیں،عبادہ ابن صامت کی بیوی ہیں،اپنے خاوند کے ساتھ روم گئیں،مقام قبرص میں سواری سے گرکر فوت ہوئیں وہاں ہی آپ کا مزا ر ہے،خلافت عثمانیہ میں وفات پائی۔(اکمال) ۲؎ حضرت ام حرام حضور صلی الله علیہ و سلم کی محرمہ ہیں اس پر سب کا اتفاق ہے۔گفتگو اس میں ہے کہ محرمہ کیوں تھیں یا تو آپ کی رضاعی خالہ ہیں یا حضرت عبدالله کی خالہ ہیں یا عبدالمطلب کی کیونکہ عبدالله اور عبدالمطلب بنی نجار کے رشتہ دار ہیں۔(مرقات)بہرحال حضور انور کا ان کے پاس جانا،کھانا پینا،وہاں سونا ان کا حضور انور کا سر شریف دیکھنا بالکل جائز تھا۔خیال رہے کہ لیٹے ہوئے آدمی کے سر کو کھجلانا ٹٹولنا اس کے راحت کا باعث ہے ام حرام کا یہ عمل شریف اس لیے تھا۔ ۳؎ یعنی میری وفات کے بعد میری امت کے شاندار غازی جہاد کے لیے سمندر کا سفر کریں گے یہ پہلا سمندری حملہ ہوگا جو وہ لوگ کریں گے۔ثج ث کے فتحہ جیم کے شد سے بمعنی چوڑائی،بلندی،گہرائی اور انسان کی پیٹھ و کندھے کے درمیان کی جگہ،یہاں پہلے معنی میں ہے بحر سے مراد بحر عرب یعنی سمندر ہے۔ ۴؎ یہ شک راوی کو ہے کہ ملوکًا فرمایا یا مثل ملوك فرمایا۔اس فرمان عالی میں دو باتیں بتائیں: ایک یہ کہ وہ غازی سادہ زندگی سادہ لباس والے نہیں بلکہ شاہانہ شان و شوکت والے ہوں گے،شاہانہ شان سے سمندر کا سفر کریں گے۔ دوسرے یہ کہ یہ لوگ الله کے بڑے ہی مقرب بندے ہوں گے کہ باوجود شاہانہ شان اور دنیاوی عیش و آرام اور عیش کے ساز و سامان کے اپنے گھر چھوڑ کر جہاد کرنے نکلیں گے،مقبولین بارگاہ ہوں گے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تبسم فرمانے سے معلوم ہوا کہ سرکار کو اپنی امت کے شان و شوکت دیکھ کر خوشی ہوئی کیوں نہ ہو کہ بچوں کی شان سے باپ کو خوشی ہوتی ہے۔ ۵؎ حضرت ام حرام نے محسوس کرلیا کہ حضور انور ان غازیوں سے بہت ہی خوش ہیں اور وہ لوگ سارے کے سارے بخشے ہوئے ہیں،تو عرض کیا کہ حضور دعا فرمادیں کہ میں بھی ان میں سے ہوؤں تاکہ آپ کی نگاہ کرم اور الله تعالٰی کی بخشش کی حصہ دار ہوجاؤں۔ ۶؎ حضور انور کی دعا کی برکت سے ام حرام الله کے ہاں ان غازیوں کی فہرست میں آگئیں جیساکہ آگے معلوم ہورہا ہے۔ ۷؎ یعنی اس دوسری خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دوسرے غازی دکھائے گئے جو اس سمندر میں اسی نیت جہاد سے اسی ملک روم کا سفر کریں گے مگر یہ لوگ وہ ہی پہلے والے نہ ہوں گے بلکہ دوسرے لوگ ہوں گے،بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ دونوں جماعتیں مغفور ہوں گی۔ ۸؎ یعنی تم کو اس جہاد میں شرکت کا موقعہ نہیں ملے گا کیونکہ تم پہلے جہاد میں شہید ہوچکی ہوگی یہ جہاد تمہاری وفات کے بعد ہوگا۔اس فرمان عالی سے چند مسائل معلوم ہوئے: ایک یہ کہ وہ سارے مجاہدین دنیا و آخرت میں مؤمن ہوں گےکہ انہیں امتی فرمایا۔دوسری روایت میں ہے کہ انہیں مغفورین فرمایا۔دوسرے یہ کہ مجاہدین شاہانہ شان و شوکت کے مالک ہوں گے اس وقت مسلمانوں کے پاس دولت ملک بہت ہوگی۔تیسرے یہ کہ ان کے یہ دونوں جہاد قبول ہوں گے اور حضور ان دونوں قسم کے غازیوں سے راضی و خوش ہیں اسی لیے حضور یہ خواب دیکھ کر مغموم نہیں ہوئے بلکہ خوش ہوئے۔چوتھے یہ کہ اس جہاد میں شریک ہونے والے بڑے درجات والے ہوں گےاگرچہ ان میں سے بعض کو جنگ کا موقعہ نہ ملے جیسے خود ام حرام کا واقعہ ہوا۔پانچویں یہ کہ حضور ہرشخص کے وقت موت اور جگہ موت سے خبردار ہیں کہ فرما دیا تم اس دوسرے جہاد کے وقت فوت ہوچکی ہوگی۔چھٹے یہ کہ امیر معاویہ اور ان کے ساتھی جلیل القدر صحابہ ہیں جنتی ہیں کہ یہ واقعہ امیر معاویہ کے زمانہ ہی میں تو پیش آیا جس کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی خوشی منائی دیکھو ہماری کتاب امیر معاویہ پر ایک نظر۔ ۹؎ یہاں امیر معاویہ کے زمانہ سے مراد آپ کی سلطنت کا زمانہ نہیں ہے بلکہ آپ کی گورنری کا زمانہ ہےکیونکہ یہ پہلا جہاد روم خلافت عثمانیہ ۲۸ اٹھائیس میں واقعہ ہوا۔(اشعہ)اس جہاد کی کمان امیر معاویہ کر رہے تھے لہذا فی زمن معاویۃ فرمایا گیا۔ ۱۰؎ یہ واقعہ ۲۸ھ میں ہوا،آپ مقام قبرص میں اس طرح شہید ہوئیں۔خیال رہے کہ دوسرا جہاد روم امیر معاویہ کی سلطنت کے زمانہ میں ہوا، ۵۱ اکیاون ہجری میں اس جہاد میں یزید ابن معاویہ غازیوں کا جرنیل تھا اور اس میں حضرت عبدالله ابن عمر،عبدالله ابن عباس،ابو ایوب انصاری،امام حسین وغیرہم جلیل القدر صحابی غازیانہ شان سے شامل تھے۔اس جہاد میں حضرت ابو ایوب انصاری نے قسطنطنیہ(استنبول)میں وفات پائی،یزید ابن معاویہ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور یزید ہی نے انہیں قسطنطنیہ(استنبول)کی فصیل کے نیچے دفن کیا اور وہاں کے عیسائیوں سے کہا کہ اگر تم نے اس قبر کی بے حرمتی کی تو میں تمہارے سارے گرجے جو ہمارے ملک میں ہیں ان کی اینٹ سے اینٹ بجادوں گا۔دیکھو قسطلانی شرح بخاری پارہ گیارہ باب قتال روم اور اکمال۔جو لوگ کہتے ہیں کہ امام حسین نے کفار سے جہاد کوئی نہ کیا وہ جھوٹے ہیں،جہاد روم کے اس جہاد میں امام حسین شریک تھے،اسی لشکر میں امام حسین کی شرکت البدایہ والنہایہ میں ہے۔ غرضکہ پہلا جہاد حضرت امیرمعاویہ کے دور گورنری میں ان کے زیر اہتمام ہوا اور دوسرا جہاد امیرمعاویہ کے دور سلطنت میں ہوا۔