مرآۃ المناجیح شرح مشکٰوۃ المصابیح جلد ہشتم |
روایت ہے حضرت خباب ابن ارت سے ۱؎ فرماتے ہیں کہ ہم نے نبی صلی الله علیہ و سلم کی بارگاہ میں شکایت کی جب کہ حضور کعبہ کے سایہ میں چادر کا تکیہ لگائے لیٹے تھے ہم نے مشرکین سے بہت سختی جھیلی تھی تو ہم نے عرض کیا کہ حضور الله سے دعا کیوں نہیں فرماتے۲؎ تو آپ اٹھ کر بیٹھ گئے چہرہ انور سرخ تھا۳؎ اور فرمایا کہ تم سے اگلوں میں ایک شخص کے لیے گڑھا کھودا جاتا تھا اسے اس گڑھے میں دبایا جاتا تھا پھر آرا لایا جاتا تھا وہ اس کے سر پر رکھا جاتا تھا وہ قاشیں کرکے چیر دیا جاتا تھا یہ اسے اس کے دین سے نہ روکتا تھا۴؎ اور اس کے گوشت کے نیچے ہڈیوں پٹھوں تک پہنچا کر لوہے کی کنگھیوں سے اسے کنگھی کی جاتی تھی اور یہ اسے اس کے دین سے نہ روکتا تھا۵؎ خدا کی قسم یہ دین پورا ہوکر رہے گا ۶؎ حتی کہ سوار صنعاء سے حضر موت تک چلے گا۷؎ کسی سے خوف نہ کرے گا سواء الله کے یا سواء بھیڑیئے کے اپنی بکریوں پر مگر تم لوگ جلد بازی کرتے ہو۸؎(بخاری)
شرح
۱؎ آپ کی کنیت ابو عبدالله ہے،قبیلہ بنی تمیم سے ہیں،زمانہ جاہلیت میں آپ کو غلام بنالیا گیا تھا پھر بنی خزاعہ کی ایک عورت نے آپ کو خرید لیا اور آزاد کردیا،ابھی حضور انور دار ارقم میں پہنچے نہیں تھے کہ یہ مسلمان ہوگئے،کفار کے ہاتھوں آپ نے بہت ہی ایذائیں پائیں اور صابر رہے بعد میں کوفہ میں قیام رہا وہاں ہی دفن ہوئے،تہتر سال عمر ہوئی ۳۷ھ سینتیس میں وفات پائی۔ (مرقات،اکمال) ۲؎ یعنی ہم نے اپنے جسم کے زخم اور تکالیف کے نشانات حضور انور کو دکھا کر یہ عرض کیا کہ ان مشرکین پر حضور بد دعا فرمادیں کہ یہ سب ہلاک ہوجاویں اور ہم کو انکی شر سے امن مل۔ ۳؎ یا تو اس لیے چہرہ سرخ تھا کہ حضور انور دھوپ میں لیٹے تھے یا اس لیے کہ کفار کی ایذا رسانی کی خبر سے یا مسلمانوں کی جلد بازی ملاحظہ فرماکر صدمہ ہوا اس سے چہرہ انور سرخ ہوگیا۔ ۴؎ یعنی پچھلی امتوں میں مؤمنوں پر ایسی سختی کی جاتی تھی کہ انہیں زندہ کو آرے سے چیر دیا جاتا تھا وہ چر جاتے تھے مگر ایمان نہ چھوڑتے تھے نہ ان مصیبتوں سے گھبراتے تھے۔ ۵؎ یعنی لوہے کی نوکیلی اور دھار دار کنگھیاں ان کی کھوپڑی میں ٹھونکی جاتی تھیں جب وہ دماغ کی تہہ تک پہنچ جاتی تھیں تو انہیں پیچھے کی طرف زور سے کھینچا جاتا تھا جس سے ان کا بھیجہ تک کھنچ کر باہر نکل پڑتا تھا مگر وہ لوگ اس کے باوجود نہ گھبراتے تھے نہ ایمان چھوڑتے تھے تو تم خیر الامم ہو تمہاری استقامت ان سے زیادہ چاہیے،دنیاوی تکالیف سے مت گھبراؤ یہ عارضی ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ دوسروں کے قصے سناکر تسلی دینا سنت رسول ہے صلی الله علیہ وسلم بلکہ قرآن کریم نے بھی اس قسم کے بہت سے واقعات بیان فرمائے ہیں۔ ۶؎ یہاں دین پورا ہونے سے مراد ہے اسلام کا پھیلنا،مسلمانوں کا غالب آجانا کفار کا مغلوب ہوجانا،مسلمانوں کی سلطنت میں امن و امان قائم ہوجانا۔اس ایک کلمہ میں بہت سی بشارتیں ہیں،رب فرماتاہے:"وَیَاۡبَی اللہُ اِلَّاۤ اَنۡ یُّتِمَّ نُوۡرَہٗ"اور فرماتاہے: "لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ"۔ ۷؎ صنعاء یمن کا ایک کنارہ ہے حضر موت دوسرا کنارہ ان دونوں شہروں میں بڑا فاصلہ ہے۔حضر موت وہ شہر ہے جہاں صالح علیہ السلام تشریف لائے اور وہاں ان کی وفات ہوئی،نیز جرجیس علیہ السلام وہاں آئے وہاں ان کی وفات ہوئی اس لیے اس کا نام حضر موت رکھا گیا۔(مرقات)اس شہر میں بڑے اولیاء الله پیدا ہوئے حتی کہ کہا جاتا ہے حضر موت ینبت الاولیاء یعنی حضر موت شہر ولی اُگاتا ہے۔(اشعۃ اللمعات)ایک قبیلہ کا نام بھی حضر موت ہے یہ قبیلہ جہاں رہتا تھا اس جگہ کا نام حضر موت ہوا۔ ۸؎ چنانچہ یہ ساری باتیں خلاف عثمانیہ میں مکمل طور پر ظاہر ہوئیں وہاں ایسا امن و امان قائم ہوا کہ سبحان الله! جس وقت حضور انور نے یہ خبریں دی تھیں اس وقت ظاہری اسباب سے یہ بات ناممکن معلوم ہوتی تھی الله نے اس ناممکن کو واقع کر دکھایا۔