Brailvi Books

مرآۃ المناجیح شرح مشکٰوۃ المصابیح جلد ہشتم
115 - 952
حدیث نمبر115
روایت ہے حضرت عدی ابن حاتم سے فرماتے ہیں ۱؎  کہ جبکہ میں نبی صلی الله علیہ و سلم کے پاس تھا کہ آپ کے پاس ایک آدمی آیا اس نے آپ سے فاقہ کی شکایت کی پھر آپ کے پاس دوسرا آیا اس نے حضور سے ڈکیتی کی شکایت کی۲؎  تو فرمایا اے عدی کیا تم نے حیرہ دیکھا ہے۳؎  اگر تمہاری زندگی لمبی ہوئی تو تم ایک بڑھیا کو دیکھو گے کہ حیرہ سے چلے گی حتی کہ کعبہ کا طواف کرے گی خدا کے سوا کسی سے نہ ڈرے گی۴؎  اور اگر تمہاری زندگی لمبی ہوئی تو تم کسریٰ کے خزانے فتح کرو گے ۵؎ اور اگر تمہاری زندگی لمبی ہوئی تو تم آدمی دیکھو گے کہ لپ بھر سونا یا چاندی لے کر نکلے گا اسے تلاش کرے گا جو اسے قبول کرے تو ایسا ایک شخص بھی نہ ملے گا۶؎  جو اس سے قبول کرے اور رب سے ملاقات کے دن تم میں سے ہر ایک اپنے رب کو یوں ملے گا کہ اس کے اور رب کے درمیان کوئی ترجمان نہ ہوگا ۷؎ جو اسے ترجمہ کرے،رب فرمائے گا کہ کیا میں نے تیری طرف رسول نہ بھیجا ۸؎ جو تجھے تبلیغ کرے بندہ کہے گا ہاں،پھر فرمائے گا کیا میں نے تجھے مال نہیں دیا تجھ پر فضل نہیں کیا بندہ کہے گا۹؎ ہاں تو وہ اپنے داہنے دیکھے گا تو نہ دیکھے گا مگر دوزخ اور اپنے بائیں دیکھے گا تو نہ دیکھے گا مگر دوزخ ۱۰؎ آگ سے بچو اگرچہ چھوہارے کی قاش کے ذریعہ جو یہ بھی نہ پائے تو اچھی بات کے ذریعہ ۱۱؎ عدی فرماتے ہیں کہ میں نے بڑھیا کو تو دیکھ لیا کہ وہ حیرہ سے چلتی ہے حتی کہ کعبہ کا طواف کرتی ہے کہ الله کے سوا کسی سے نہیں ڈرتی۱۲؎ اور میں خود ان لوگوں میں تھا جنہوں نے کسریٰ ابن ہرمز کے خزانے فتح کیے اور اگر تم لوگوں کی عمر دراز ہوئی تو تم وہ بھی دیکھ لو گے جو ابوالقاسم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ آدمی لپ بھر سونا لے کر نکلے گا۱۳؎(بخاری)
شرح
۱؎ حضرت عدی صحابی ہیں،یہ حاتم کے بیٹے ہیں،یہ حاتم وہ ہے جو مشہور سخی گزرا ہے،آپ اپنے والد حاتم ابن عبد ابن سعد کی وفات کے بعد شعبان    ۷ھ؁  میں ایمان لائے بعد میں کوفہ میں رہے،حضرت علی کے ساتھ تمام جنگوں میں شریک ہوئے،جمل کے دن آپ کی ایک آنکھ جاتی رہی تھی،ایک سو بیس سال کی عمر پائی،  ۶۷ھ؁  میں وفات پائی مقام فرقلیہ میں قبر ہے۔(کمال)

۲؎  معلوم ہوا کہ اس وقت قحط سالی اور راستہ کی بد امنی شباب پر تھی،لوگوں کے گھروں میں رزق نہ تھا باہر جا کر کمانے کے لیے راہ میں امن نہ تھی کریں تو کیا۔

۳؎ حیرہ نیشاپور کا ایک محلہ بھی ہے اور کوفہ کے قریب ایک بستی بھی یہاں دوسرے معنی مراد ہیں۔حضرات صحابہ نے اس زمانہ میں فارس کا ملک وہاں کے شہریوں کے محلے نہیں دیکھے تھے۔

۴؎  یہ بشارت ڈکیتی کی شکایت کا جواب ہے کہ عنقریب ایسا امن و امان کا زمانہ آنے والا ہے۔ظعینۃ بنا ہے ظعن سے بمعنی اونٹ کا ہودج یا ہودج کا سوار یعنی مسافر ظعینہ مسافرہ عورت۔یہاں سفر حج کی مسافرہ عورت مراد ہے۔اس فرمان عالی میں اشارۃً فرمایا گیا ہے کہ تم اپنے زندگی میں یہ امن و امان دیکھ لو گے اسلام کی سخت سزاؤں نے عرب جیسے ملک میں امان قائم کردی جہاں صدیوں سے ڈکیتی چوری قزاقی وغیرہ تھی۔

۵؎  کسریٰ لقب تھا بادشاہ ایران کا یہ اصل میں خسرو تھا بمعنی بڑے ملک کا مالک۔خسرو فارسی لفظ ہے،اس سے عربی میں کسریٰ بنایا گیا لہذا یہ معرب ہے۔کنوز فرماکر یہ بتایا کہ تم صرف ملک ایران ہی فتح نہیں کرو گے بلکہ ان کے سونے سے بھرے ہوئے خزانے بھی حاصل کرو گے یہ بشارت عہد فاروقی میں ظاہر ہوئی۔

۶؎  یعنی لوگوں میں مال کی بہت ہی فراوانی ہوگی ساتھ ہی ایمانداری تقویٰ دیانت بھی کمال درجہ کی ہوگی کہ اس وقت نہ تو کوئی فقیر ہوگا جو زکوۃ لینے کے قابل ہو نہ کوئی طمع کا مارا لالچی ہوگا جو خواہ مخواہ زکوۃ لے لے اگرچہ فقیر نہ ہو جیسا آج ہو رہا ہے کہ بعض امیر لوگ فقیر بن کر زکوۃ لے لیتے ہیں اس زمانہ میں قناعت بھی ہوگی۔یہ واقعہ حضرت عمر ابن عبدالعزیز رحمۃ الله علیہ کے زمانہ میں ہوچکا اور قریب قیامت امام مہدی و عیسیٰ علیہما السلام کے دور میں ہوگا۔یہاں پہلے واقعہ کی طرف اشارہ ہے اس لیے فرمایا کہ اگر تمہاری عمر دراز ہوئی تو تم اپنی آنکھوں سے یہ دیکھ لو گے جس سے معلوم ہوا کہ یہ واقعہ صحابہ کرام دیکھیں گے۔(مرقات و اشعۃ اللمعات)بیہقی نے اس پر یقین فرمایا کہ یہ واقعہ ہوچکا حضرت عمر ابن عبدالعزیز کے زمانہ میں۔

۷؎  یعنی تم لوگ قیامت میں براہ راست بلاواسطہ اپنے رب سے کلام کروگے یہ کلام عربی زبان میں ہوگا۔قیامت کا سارا کاروبار بلکہ آج نامہ اعمال کی تحریر،قبر میں منکر نکیر کے سوالات سب عربی زبان میں ہیں،مرتے ہی انسان کی زبان عربی ہوجاتی ہے۔رب تعالٰی کے ہاں سرکاری زبان عربی ہے اس لیے فرمایا کہ لوگ اپنی دنیاوی بولیاں نہ بولیں گے تاکہ رب کا عربی کلام انہیں سمجھانے کے لیے کوئی ترجمہ کرنے والا درمیان میں نہ ہو۔خیال رہے کہ حضور انور صلی الله علیہ و سلم خود تو عربی بولتے تھے مگر ساری زبانیں سمجھتے تھے حتی کہ جانوروں کی بولیاں بھی سمجھ لیتے تھے اس لیے اونٹوں چڑیوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آستانہ پر فریاد کی اور داد پائی،اعلیٰ حضرت قدس سرہ نے کیا خوب فرمایا۔شعر

ہاں یہیں کرتی ہیں چڑیاں فریاد ہاں یہیں چاہتی ہے ہرنی داد

اسی   در   پر  شتران  ناشاد  شکوہ ٔ رنج وعنا  کرتے  ہیں

۸؎  الله تعالٰی سب سے پہلے اپنی اس نعمت کا اقرار کرائے گا جو ساری نعمتوں کی اصل بلکہ ساری نعمتوں کو نعمت بنانے والی ہے یعنی حضور صلی الله علیہ و سلم کی تشریف آوری کہ الله کی ساری نعمتیں اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے ماتحت استعمال کی جاویں تو نعمتیں ہیں ورنہ عذاب ہیں ہمارے خلاف گواہ۔

۹؎  اس فرمان عالی میں یہ بتایا گیا کہ مال وغیرہ انسان کی محض اپنی کوشش سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ الله تعالٰی کے فضل سے ملتا ہے۔شیخ سعدی فرماتے ہیں    ؎

بہ ناداں چناں روزی رساند			 کہ دانا اندراں حیراں بماند

اگر بہ ہر سرمویت ہنر دو صد باشد		ہنر بہ کارنہ آید چوبخت بدباشد

۱۰؎  اس عبارت میں روئے سخن بخیل مالداروں کی طرف ہے جو مال کا واجبی صدقہ نہ دیں،صحابہ کرام سے خطاب نہیں کہ وہ لوگ حضور صلی الله علیہ و سلم کی صحبت پاک کی برکت سے اعلیٰ درجہ کے متقی اول درجے کے سخی تھے جیساکہ حدیث اور تاریخ خواں حضرات سے چھپا نہیں۔

۱۱؎  یہاں کلمہ طیبہ سے مراد یا تو کلمہ شہادت ہے یا الله کا ہر ذکر ہے یا فقیر سے اچھی بات کہہ دینا معزرت کردینا آئندہ کے لیے وعدہ کرلینا کہ ابھی کچھ نہیں جب کچھ ہوگا تب ان شاءالله تم کو دیں گے اسی کو قرآن مجید نے قول معروف فرمایا ہے۔خیال رہے کہ حضور انور نے آئندہ دولت کی خبریں دے کر انہیں سخاوت دینداری پر قائم رہنے کی تاکید فرما دی،یہ ہے قوم کی اصلاح۔

۱۲؎  یعنی خلافت فاروقی میں ایران فتح ہوا،اس کا دارالخلافہ مدائن مسلمانوں کے قبضہ میں آیا۔مدائن میں شاہی محل جسے فارسی میں کوشک کہتے ہیں۔مسلمانوں نے حاصل کیا وہاں کے بے پناہ خزانے مسلمانوں کو ملے،اس جہاد میں میں خود موجود تھا اور یہ امن و امان خلافت عثمانیہ میں بھی میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لی کہ حیرہ سے بوڑھی عورت اکیلی مکہ معظمہ آرہی ہے اور راستہ میں کسی ڈکیتی وغیرہ کا اسے خطرہ نہیں حضور انور کی یہ دو پیش گوئیاں تو میں نے دیکھ لیں۔

۱۳؎ یعنی میرا اب آخری وقت آچکا ہے غالبًا تیسری پیش گوئی تم لوگ دیکھو گے کہ کوئی زکوۃ قبول کرنے والا نہ ملے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ حضرت عدی ابن حاتم حضرت عمر ابن عبدالعزیز کے زمانہ سے پہلے وفات پاگئے ہیں جیساکہ پہلے کہا گیا۔
Flag Counter