Brailvi Books

مرآۃ المناجیح شرح مشکٰوۃ المصابیح جلد ہشتم
109 - 952
الفصل الثالث

تیسری فصل
حدیث نمبر109
روایت ہے حضرت یحیی ابن ابی کثیر سے فرماتے ہیں کہ میں نے ابو سلمہ ابن عبدالرحمن سے ۱؎ قرآن کی پہلی نازل ہونے والی آیت کے متعلق پوچھا تو فرمایا یا ایہا المدثر ہے،میں نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ اقرا باسم ربك ہے ۲؎  تو ابو سلمہ بولے کہ میں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے اس بارے میں پوچھا اور میں نے ان سے اسی طرح کہا جو تم نے مجھ سے کہا تو مجھ سے حضرت جابر نے کہا کہ میں تم کو نہیں خبر دیتا مگر اس کی جو ہم کو رسول الله صلی الله علیہ و سلم نے خبر دی فرمایا تھا کہ میں نے حراء میں ایک ماہ اعتکاف کیا۳؎  تو جب میں نے اپنا اعتکاف پورا کیا۴؎  تو میں اتر آیا پھر مجھے پکارا گیا میں نے اپنے داہنے دیکھا تو کچھ نہ دیکھا اور میں نے اپنے بائیں غور کیا تو کچھ نہ دیکھا اور میں نے اپنے پیچھے دیکھا تو کچھ نہ پایا ۵؎ پھر میں نے اپنا سر اٹھایا تو ایک چیز دیکھی پھر میں جناب خدیجہ کے پاس آیا میں نے کہا کہ مجھے کپڑا اوڑھا دو انہوں نے اوڑھا دیا اور مجھ پر ٹھنڈا پانی ڈالا ۶؎  تب یہ آیت اتری اے کپڑے اوڑھنے والے اٹھو ڈراؤ اور اپنے رب کی بڑائی بولو اور اپنے کپڑے پاک رکھو پلیدی دور کرو،یہ واقعہ نماز فرض کیے جانے سے پہلے کا ہے ۷؎(مسلم،بخاری)
شرح
۱؎ یہ دونوں حضرات تابعی ہیں،یحیی ابن کثیر بھی اور ابو سلمہ ابن عبدالرحمن بھی دونوں بڑے عالم فقیہ،عابد زاہد متقی تھے۔

۲؎ دونوں روایتیں درست ہیں نبوت کی پہلی آیت"اِقْرَاۡ بِاسْمِ رَبِّکَ"ہےاور رسالت کی پہلی آیت"یٰۤاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ" ہے،آپ پڑھ چکے ہیں کہ"یٰۤاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ"وحی بند ہونے کے بعد اتری ہے۔(مرقات)یعنی تبلیغ انداز کی پہلی آیت "یٰۤاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ"ہے۔

۳؎ یہاں اعتکاف سے وہ اعتکاف مراد ہے جو وحی بند ہوجانے کے زمانہ میں حضور انور نے غار حرا میں کیا تھا"اِقْرَاۡ بِاسْمِ رَبِّکَ"آیۃ آچکی تھی،اس کے بعد بھی حضور انور غار حرا میں جاتے وہاں عبادت کرتے رہے۔اس سے معلوم ہوا کہ وحی ایک ماہ تک بند رہی ہے۔(مرقات)وحی بند رہنے کی مدت میں جو گفتگو ہے وہ ہم پہلے عرض کرچکے ہیں۔حضور انور کا پہلا اعتکاف تو چھ ماہ کا تھا جو نزول وحی سے پہلے ہوا۔

۴؎  یعنی یہ دوسرا اعتکاف ایک ماہ والا مراد ہے لہذا حدیث پر کوئی اشکال نہیں وہ پہلا اعتکاف چھ ماہ والا مراد نہیں۔خیال رہے کہ ان اعتکافوں میں حضور انور ساتویں آٹھویں دن اپنے گھر جناب خدیجۃ الکبریٰ کے پاس روٹی لینے تشریف لاتے تھے۔

۵؎  یعنی آواز تھی مگر آواز والا کوئی نہ تھا۔

۶؎  کیونکہ الله کے ذکر اس کی تجلی میں گرمی ہوتی ہے جو کبھی ٹھنڈے پانی سے کم ہوجاتی ہے۔بعض صوفیا کو دیکھا گیا ہے کہ وہ ٹھنڈے پانی میں نہر یا دریا میں کھڑے ہو کر ذکر الله کرتے ہیں یہ غلط نہیں ہے اس کی اصل یہ حدیث ہے۔

۷؎  معلوم ہوا کہ طہارت و صفائی کا حکم پہلے آیا نماز کا حکم بعد میں،یہ بھی خیال رہے کہ نماز پنجگانہ معراج میں آئی یعنی شب معراج میں اور نماز تہجد پہلے آئی معراج سے پہلے حضورصلی اللہ علیہ وسلم پڑھا کرتے تھے،بیت المقدس میں حضرات انبیاءکرام کو یہ نماز تہجد کی پڑھائی ہوگی۔والله اعلم! یہاں صلوۃ سے مراد مطلقًا نماز ہے کیونکہ سورۂ مدثر کے عرصہ کے بعد سورۂ مزمل آئی اور سورۂ مزمل سے نماز تہجد جاری ہوئی۔
Flag Counter