مرآۃ المناجیح شرح مشکٰوۃ المصابیح جلد ہشتم |
روایت ہے حضرت عائشہ سے انہوں نے عرض کیا یارسول الله کیا آپ پر کوئی دن ایسا بھی گزرا جو احد کے دن سے زیادہ سخت ہو ۱؎ تو فرمایا میں نے تمہاری قوم سے بڑی مصیبتیں جھیلیں۲؎ احد سے سخت دن جب میں نے ان کی مصیبت جھیلی عقبہ کا دن تھا۳؎ جب کہ میں نے اپنے کو ابن عبدیا لیل ابن کلال کے سامنے کیا ۴؎ جو میں نے چاہا تھا اس نے وہ جواب نہ دیا ۵؎ تو میں اپنے رخ پر چلا حالانکہ میں حیران تھا مجھے اس حیرانی سے افاقہ نہ ہوا مگر مقام قرن ثعالب میں۶؎ تو میں نے اپنا سر اٹھایا ۷؎ تو میں ایک بادل کے سامنے تھا جس نے مجھ پر سایہ کیا تھا میں نے دیکھا تو اس میں جبریل تھے۸؎ انہوں نے مجھے پکارا عرض کیا کہ الله نے آپ کی قوم کا کلام اور جو انہوں نے آپ کو جواب دیا سن لیا آپ کی خدمت میں پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے ۹؎ تاکہ آپ ان کفار کے متعلق جو چاہیں حکم دیں۱۰؎ فرمایا کہ پھر مجھے پہاڑوں کے فرشتے نے پکارا مجھے سلام کیا پھر کہا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۱۱؎ الله نے آپ کی قوم کا کلام سن لیا میں پہاڑوں کافرشتہ ہوں مجھے آپ کے رب نے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے تاکہ آپ مجھے اپنے فیصلے کا حکم دیں۱۲؎ اگر آپ چاہیں تو میں ان لوگوں پر دو اخشب پہاڑ ملادوں۱۳؎ تو رسول الله صلی الله علیہ و سلم نے فرمایا بلکہ میں امیدکرتا ہوں کہ الله تعالٰی ان کی پیٹھوں میں سے ایسے لوگ پیدا کرے جو ایک الله کی عبادت کریں اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں ۱۴؎ (مسلم،بخاری)
شرح
۱؎ غزوہ احد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عزیز شہید ہوئے،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا دانت شریف شکستہ ہوا،سر مبارک زخمی ہوا،مسلمانوں کو سخت تکلیف پہنچی۔میرے خیال میں ایسا سخت دن آپ پر کوئی نہیں گزرا ہوگا فرمایئے تو اس سے سخت دن بھی کوئی آپ پر گزرا ہے۔ ۲؎ یہاں قومك فرمانا اظہار افسوس کے لیے ہے حضرت عائشہ صدیقہ کی قوم وہی تو ہے جو حضور انور کی قوم ہے یعنی قریش۔مقصد یہ ہے کہ ہم نے قریش سے بہت تکلیفیں دیکھی ہیں جو غزوہ احد سے زیادہ سخت تھیں کہ ان میں میرے قلب کو زخمی کیا گیا۔ ۳؎ عقبہ منیٰ شریف کے ایک حصہ کا نام ہے،جمرہ عقبہ اس ستون کا نام ہے جو اسی جگہ واقع ہے۔حضور انور حج کے زمانہ میں منٰی شریف میں باہر سے آنے والوں کو تبلیغ فرمایا کرتے تھے یہاں اس تبلیغ کا ذکر ہے۔یوم عقبہ سے مراد ہے عقبہ کے میدان میں تبلیغ کا دن،عقبہ پہاڑ کے راستہ کو کہتے ہیں،چونکہ یہ جگہ دو پہاڑوں کے بیچ میں ہے اسی لیے اس کو عقبہ کہا جاتا ہے۔(مرقات)یا عقب بمعنی پیچھے ہے یہاں کا جمرہ پہلے دو جمروں کے پیچھے واقع ہے لہذا یہ ستون جمرہ عقبہ کہلاتا ہے اور یہ جگہ عقبہ۔ ۴؎ اس شخص کا نام مسعود ابن عبد یا لیل ابن کلال ابن عمرو تھا،یہ قبیلہ بنی ثقیف سے تھا،طائف کا رہنے والا وہاں کا بڑا سردار تھا،یہ سولہ سولہ ساتھیوں کے ساتھ طائف سے حج کرنے آیا تھا،اسے حضور انور نے عقبہ میں دعوتِ اسلام دی یہ سخت بدتمیزی سے پیش آیا اور اسلام لانے سے انکار کر گیا،حضور انور کو اس سے بہت صدمہ ہوا،ابن عبدالبر نے کہا ہے کہ یہ ۱۰ ہجری میں مسلمان ہوا،انہوں نے اسے صحابہ میں شمار کیا ہے مگر علامہ واقدی نے کہا کہ یہ مسلمان نہیں ہوا۔والله اعلم! (مرقات) ۵؎ یعنی اس نے اسلام قبول نہیں کیا میری کوئی بات نہ مانی بلکہ اپنے ساتھیوں اور لڑکوں کو حضور انور کے پیچھے لگادیاجنہوں نے حضور انور پر پتھر برسائے اور آپ کو زخمی کردیا حتی کہ آپ کے قدم شریف نعلین شریف سے خون کی وجہ سے چپک گئے۔(اشعہ) ۶؎ یعنی اس واقعہ سے مجھے اتنا صدمہ ہوا کہ میں گویا بے ہوش ہوگیا اس حالت میں سامنے کی طرف چل دیا حتی کہ مجھے یہ خبر نہیں کہ میں کہاں جارہا ہوں چلتے چلتے مقام قرن الثعالب پر پہنچ گیا،قرن الثعالب کو قرن المنازل بھی کہتے ہیں یہ جگہ نجد والوں کا میقات ہے وہاں پہنچ کر مجھے اس حالت سے افاقہ ہوا۔ ۷؎ آسمان کی طرف سے سر اٹھا کر اپنے رب کی رحمت کا انتظار کیا کیونکہ آسمان قبلہ دعا ہے۔ ۸؎ آج حضرت جبریل حضور کی خدمت میں نئی شان سے حاضر ہوئے کہ بادل سایہ دار اور پہاڑوں کا حاکم فرشتہ ساتھ ہے۔ ۹؎ اس فرشتہ کا نام اسمعیل ہے یہ پہاڑوں کے انتظامات پر مقرر ہے،دنیا کے پہاڑوں پر اس کا راج ہے سارے پہاڑ اس کے زیر فرمان ہیں۔ ۱۰؎ یعنی پہاڑ تو اس فرشتہ کے زیر فرمان ہیں اور یہ فرشتہ آقا حضور صلی الله علیہ و سلم آپ کے زیر فرمان جو آپ حکم دیں گے وہ یہ فرشتہ کرے گا اور جو یہ حکم دے گا اس پر پہاڑ عمل کریں گے گویا سارے پہاڑ آپ کے خادم ہیں آپ کے قبضہ میں ہیں،یہ ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سلطنت۔آج بعض اولیاء جیسے حضور غوث پاک جہان کے راجہ ہیں اور حضور انور کے زیر فرمان ہیں اللہم صل وسلم وبارك علیہ۔خیال رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر فرمان درخت،پتھر،پہاڑ،جانور سب ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے پتھروں نے کلمہ پڑھا،چاند پھٹا،بادل برسے۔یہاں حضو صلی اللہ علیہ وسلم کی زیادہ شان دکھائی ہے کہ پہاڑوں کا حاکم فرشتہ بھی آپ کے زیر فرمان ہے جیسے حضرت سلیمان علیہ السلام بلقیس کا تخت خود نہ لائے بلکہ اپنے خادم آصف ابن برخیا سے منگایا جو پلک جھپکنے سے پہلے یمن سے شام میں لے آئے تاکہ پتہ لگے کہ ان کے آستانہ کے خدام یہ طاقت رکھتے ہیں۔ ۱۱؎ حضور انور کو یامحمد کہہ کر پکارنا اس آیت کے نزول سے پہلے تھا"لَا تَجْعَلُوۡا دُعَآءَ الرَّسُوۡلِ بَیۡنَکُمْ کَدُعَآءِ بَعْضِکُمۡ بَعْضًا"اس آیت سے آپ کو صرف نام لے کر پکارنا حرام ہوا یا حضور انور نے اس فرشتہ کے الفاظ کی نقل بامعنی فرمائی اس نے تو رسول الله حبیب اللہ کہہ کر پکارا ہوگا حضور انور نے ان لفظوں سے نقل کی جیسے ایک بڑا عالم کہتا ہے کہ لوگوں نے مجھ سے کہا کہ تو بھی کچھ بول حالانکہ لوگ تو ادب سے عرض کرتے ہیں۔یا لفظ محمد اپنے لغوی معنی میں ہے یعنی تمام مخلوق بلکہ خالق کے سراہے ہوئے سب کے ممدوح سب کی تعریف کیے ہوئے اگر ان بے وقوفوں نے آپ کو نہیں پہنچانا تو آپ غم نہ کریں آپ کو تو ساری خلقت جانتی پہچانتی آپ کی حمد و ثنا کرتی ہے۔بہرحال فرشتے کے اس لفظ کو دیکھ کر ہم حضور کو اس طرح نہیں پکارسکتے،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تو رب یایہا النبی،یایہا الرسول، یایہا المزمل،یایہا المدثر کے پیارے القاب سے پکارتا ہے۔ ۱۲؎ سبحان الله! رب تعالٰی حضور کا کتنا احترام فرماتا ہے کہ خود عذاب نہیں بھیجتا جیسے دوسرے نبیوں کی امتوں پر عذاب بھیجا بلکہ حضور انور کی اجازت پر معلق رکھا۔ ۱۳؎ اخشبین تثنیہ ہے اخشب کی بمعنی مضبوط اور بڑا اونچا پہاڑ۔بعض شارحین نے کہا کہ یہ دونوں پہاڑ طائف میں ہیں جن کے بیچ میں طائف واقع ہے،بعض نے کہا کہ مکہ معظمہ و طائف کے درمیان ہیں،بعض نے فرمایا کہ مکہ معظمہ میں ہیں ہوسکتا ہے کہ مکہ معظمہ سے شروع ہوئے اور طائف تک پہنچے ہوں جیسے ہمالیہ پہاڑ کا سلسلہ بہت دور تک چلا گیا ہے۔(از مرقات)مطلب یہ ہے کہ مجھے حکم دیں تو میں ان دونوں پہاڑوں کو ملادوں جس سے سارا طائف اس طرح پس جاوے جیسے چکی کے پاٹوں میں دانے پس جاتے ہیں۔ ۱۴؎ یہ فرمان عالی ایک سوال کے جواب میں ہے،حضور انور نے اس سے منع فرمایا فرشتہ نے بہ ادب اجازت دینے کا اصرار کیا تب حضور انور نے یہ وجہ بیان فرمائی کہ اگرچہ یہ لوگ اسی سزا کے مستحق ہیں مگر وہ وہی ہیں ہم ہم ہیں۔ہم تو یہ کہتے ہیں ؎ الہ العالمین کر رحم طائف کے مکینوں پر الٰہی پھول برسا پتھروں والی زمینوں پر اعدا پہ یہ رحمت صل علی طائف کی فضائیں شاہد ہیں دیتے ہیں دعا سرکار انہیں جو مارنے پتھر آتے ہیں بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب ابن عبدیا لیل اسلام لانے حاضر ہوا صحابہ نے خبر دی کہ وہ آتا ہے فرمایا آنے دو وہ آپ کے سامنے بیٹھ کر بہت زار زار رویا اور کبھی آپ کے سامنے سر اونچا نہ کیا آنکھ نہ اٹھائی۔والله ورسولہ اعلم! اس فرمان عالی سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور انور ان کفار کی اولاد کے حالات سے بھی خبردار ہیں کہ وہ ایمان لائیں گے،چنانچہ وہاں سب ہی مؤمن ہوئے اور اب تک ایک بھی کافر نہیں،نوح علیہ السلام نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا تھا"وَ لَا یَلِدُوۡۤا اِلَّا فَاجِرًا کَفَّارًا"خدایا اب یہ قوم کافر و فاجر ہی جنے گی۔معلوم ہوا کہ پشتہاپشت کے حالات سے خبردار ہیں۔شعر ملکہ قبل ازدا دن تو سالہا ہم چنیں دانند چنیں حالہا