Brailvi Books

مرآۃ المناجیح شرح مشکٰوۃ المصابیح جلد ہشتم
105 - 952
حدیث نمبر105
روایت ہے حضرت عبدالله ابن مسعود سے فرماتے ہیں جب کہ رسول الله صلی الله علیہ و سلم کعبہ کے پاس نماز پڑھتے تھے ۱؎ اور قریش کی ایک جماعت اپنی مجلسوں میں تھی کہ ایک بولا ۲؎ تم میں کون شخص فلاں قبیلہ کے ذبیحہ اونٹ کیطرف جائے گا اور اس کی لید اور ا س کے خون اس کی اوجڑی لائے حضور کو مہلت دے حتی کہ جب آپ سجدہ کریں تو اسے آپ کے کندھوں کے بیچ رکھ دے۳؎ تو ان میں سے بڑا بدبخت گیا پھر جب حضور نے سجدہ کیا تو وہ آپ کے کندھوں کے درمیان رکھ دیا۴؎ اور نبی صلی الله علیہ و سلم سجدہ میں ٹھہرے رہے ۵؎ کفار ہنسے حتی کہ بعض بعض پر گرنے لگے ہنسی کی وجہ سے ۶؎ پھر کوئی جانے والا جناب فاطمہ کے پاس گیا ۷؎ وہ دوڑتی آئیں ۸؎  اور نبی صلی الله علیہ و سلم سجدہ میں رہے حتی کہ انہوں نے آپ سے یہ گندگی ہٹا دی اور آپ ان پر متوجہ ہوئیں انہیں برا کہتی تھیں ۹؎ پھر جب رسول الله صلی الله علیہ و سلم نے نماز پوری فرمالی تو عرض کیا الٰہی ان قریشیوں کو پکڑ لے تین بار فرمایا ۱۰؎ اور آپ جب دعا مانگتے تو تین بار مانگتے تھے اور جب سوال کرتے تو تین بار کرتے تھے ۱۱؎  الٰہی پکڑ لے ابوجہل کو۱۲؎ عتبہ ابن ربیعہ کو شیبہ ابن ربیعہ کو۱۳؎ اور ولید ابن عتبہ کو اور امیہ ابن خلف کو اور عقبہ ابن ابی معیط کو اور عمارہ ابن ولیدکو۱۴؎ جناب عبدالله فرماتے ہیں کہ الله کی قسم میں نے انہیں بدر کے دن پچھڑا ہوا دیکھا ۱۵؎ پھر وہ بدر کے جھیرے کی طرف کھینچ کر پھینکے گئے ۱۶؎ پھر رسول الله صلی الله علیہ و سلم نے فرمایا کہ ان جھیرے والوں پر لعنت ڈالی گئی ۱۷؎ (مسلم،بخاری)
شرح
۱؎ غالب یہ ہے کہ یہ نماز وہ نماز تھی جو حضور انور اپنے الہام سے پڑھا کرتے تھے،یہ نماز پنج گانہ میں سے نہ تھی کیونکہ یہ واقعہ جب کا ہے جب جناب فاطمہ بہت چھوٹی بچی تھی اور ابھی حضور انور کو معراج نہیں ہوئی تھی نماز پنجگانہ معراج میں عطا ہوئی ہے۔

۲؎  یہ بولنے والا ابوجہل تھا جیساکہ روایات میں ہے،بعض نے کہا کہ کوئی اور تھا۔(مرقات)

۳؎  یعنی وہ تو یہ حرکت کرے اور ہم لوگ تماشا کے طور پر ہنسی مذاق کریں۔معلوم ہوا کہ حضرات انبیاءکرام سے ہنسی کرنا کفار کا پرانا دستور ہے،ان حضرات کےکسی عمل شریف کا مذاق اڑانا کفر ہے،ان کی ہر ادا کا ادب و احترام ایمان کا رکن ہے۔

۴؎  یہ حرکت کرنے والا عقبہ ابن ابی معیط تھا،بعض نے کہا کہ ابوجہل خود تھا۔

۵؎  چونکہ اس وقت تک نماز کے احکام طہارۃ وغیرہ نہیں آئے تھے اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاست پڑ جانے کے باوجود سجدہ جاری رکھا،یہ نماز وہ نہ تھی جو اسلام میں بعد معراج جاری ہوئی یا ممکن ہے کہ سر مبارک اس لیے نہ اٹھایا کہ فرش کعبہ پر یہ نجاستیں نہ گریں۔جب جناب فاطمہ نے یہ چیزیں پھینک دیں تو کپڑے پاک کرکے نماز دوبارہ پڑھی ہو لہذا اب اگر دوران نماز نمازی پر نجاست گر جاوے تو نماز ٹوٹ جاوے گی دوبارہ پڑھنی ہوگی،بعض آئمہ کے ہاں اگر دوران نماز نمازی پر نجاست گرجاوے تو نماز ہوجاتی ہے اول سے کپڑے بدن پاک ہونا چاہئیں درمیان میں پاک رہنا ضروری نہیں انکے قول پر حدیث بالکل ظاہر ہے۔

۶؎  یہ ہنسی صرف کفر ہی نہ تھی بلکہ عذاب الٰہی کا پیش خیمہ تھی ان لوگوں کو ایمان کی توفیق نہ ملی حتی کہ جنگ بدر میں سارے کفر پر مارے گئے۔

۷؎  اس وقت حضرت ابوبکر صدیق یا علی مرتضیٰ یا اور کوئی صحابی موجود نہ تھے کفار میں سے کوئی نرم دل کافر جو بدنصیبوں کا مقابلہ کرکے حضور انور کی یہ تکلیف دور نہ کرسکتا تھا وہ دوڑا ہوا جناب فاطمہ کے پاس پہنچا کہ ایسے موقعہ پر چھوٹے بچے بے تکلف وہ کام کرلیتے ہیں جو بڑوں سے نہیں ہوتے اور اگر مسلمان نے خبر دی ہے تو وہ بھی یہی وجہ تھی کہ اس مسلمان کے یہ پلیدی ہٹانے پر جنگ کا خطرہ تھا وہ اکیلا ان سب سے لڑ نہ سکتا تھا اس لیے اس نے یہ ترکیب نکالی۔اشعۃ اللمعات نے کہا کہ یہ خبر دینے والے حضرت عبدالله ابن مسعود تھے۔

۸؎  اس وقت حضرت فاطمہ بہت چھوٹی بچی تھیں اسی لیے آپ دوڑتی ہوئی آئیں بچے جب بھی چلتے ہیں تو دوڑتے ہوئے چلتے ہیں۔یہاں مرقات نے فرمایا کہ حضرت خاتون جنت فاطمہ زہرا کی ولادت پاک کے وقت حضور انور کی عمر شریف اکتالیس سال تھی۔

۹؎  خیال رہے کہ عربی میں شتم کہتے ہیں گالی کو،سب کہتے ہیں برا کہنے ملامت کرنے کو۔حضرت فاطمہ کی زبان شریف پر گالی کبھی نہیں آئی ہاں آپ نے اس وقت کفار کو ملامت کی سب کے یہ ہی معنی ہیں۔

۱۰؎ قریش سے مراد قوم قریش نہیں،قریش تو خود حضور انور جناب صدیق و فاروق عثمان و علی بھی ہیں۔مراد یہ قریشی لوگ ہیں جنہوں نے مذکورہ بے ادبی گستاخی کی،اگلی عبارت اسی کی تفصیل ہے۔نماز پوری فرمانے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور انور نے فورًا نماز نہیں توڑ دی بلکہ بقیہ رکعات پوری فرمالیں،اس کی تحقیق ابھی کی گئی کہ اس وقت نماز میں طہارت کے بلکہ خود نماز کے احکام نہیں آئے تھے۔

۱۱؎  سنت یہ ہی ہے کہ دعا مانگے تو تین بار،رب سے کچھ سوال کرے تو تین بار،سوال سے مراد بھی دعا ہی ہے۔

۱۲؎  ابوجہل کا نام عمرو ابن ہشام ابن مغیرہ مخزومی ہے،اس کی کنیت ابو الحکم تھی کہ لوگوں میں یہ فیصلے کرتا تھا حضور انور نے اس کی کنیت ابوجہل رکھی،اس میں وہ ایسا مشہور ہوگیا کہ اس کا نام اس کی پہلی کنیت چھپ کر رہ گئی۔غزوہ بدر میں عفراء کے دو بچوں معوذ و معاذ کے ہاتھوں قتل ہوا،حضرت عبدالله ابن مسعود نے اس کا ناپاک سر جسم سے جدا کیا۔

۱۳؎ حضور انور نے اپنی ذاتی دشمن کو کبھی بددعا نہیں دی،یہ دشمن دینی تھے جو حضور انور کی نماز میں خلل ڈالتے اور حضور کو دینی تکالیف بھی پہنچاتے رہتے۔اپنے دشمنوں کو معافی دینا،قوم،ملک،قانون کے دشمنوں پرسختی کرنا یہ ہی اخلاقی محمدی ہیں"اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمْ"۔

۱۴؎ خیال رہے کہ شیبہ ابن ربیعہ ابن شمس ابن عبدمناف کو بدر کے دن حضرت علی نے جہنم رسید کیا اور عتبہ ابن ربیعہ کو جو شیبہ کا بھائی تھا حضرت حمزہ ابن عبدالمطلب نے بدر کے دن قتل کیا اور امیہ ابن خلف جو حضرت بلال کا پہلا مولٰی تھا یہ بھی بدر میں مسلمانوں کے ہاتھوں بہت بری طرح مارا گیا جس کا ذکر بہت طویل ہے۔الله تعالٰی نے اسے اسی طرح قتل کرایا نیزے،برچھے چھروا کر جیسے وہ حضرت بلال کے جسم شریف میں گرم لوہے کی سلاخین چبھویا کرتا تھا۔اس کے بھائی ابی ابن خلف کو احد کے دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود قتل کیا اپنے ہاتھ شریف سے،صرف یہ ہی کافر حضور کے ہاتھوں مارا گیا ہے۔

۱۵؎ یعنی حضرت عبدالله ابن مسعود فرماتے ہیں کہ حضور انور کی یہ دعا قبول ہوئی اور یہ لوگ کفر پر مرے یا مارے گئے۔ خیال رہے کہ ان میں سے عمارہ ابن ولید جنگ بدر میں قتل نہیں ہوا بلکہ حبشہ میں مرا اور عقبہ ابن ابی معیط جنگ بدر سے واپس آکر مارا گیا۔(اشعہ)لہذا ان سب کو بدر کا مقتول کہنا تغلیبًا ہے۔

۱۶؎  بدر ایک شخص کا نام تھا جو اس جگہ کا مالک تھا اس کے نام پر اس علاقہ کو اور اس کنویں کو بدر کہنے لگے۔قلیب کنویں کے پاس وہ گہرا غار جو کچا ہو اور اس پر من وغیرہ نہ ہو اس میں ان تمام کی لاشیں ڈالی گئیں مگر امیہ ابن خلف کی لاش ڈالی نہیں جاسکی کیونکہ اسے کھینچتے ہی اس کے اعضاء الگ الگ ہوگئے۔

۱۷؎ یعنی دنیا میں تو ان کی ایسی ذلت و رسوائی ہوئی اور آخرت کی رسوائی اور عذاب ان کے لیے تیار تھا کہ قلیب میں پڑتے ہی اس میں گرفتار کرلیے گئے۔لعنت سے مراد فرشتوں کی پھٹکار اور ان کی سخت مار ہے جس میں وہ گرفتار ہوئے۔ (مرقات)معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ستانے والا بدترین بدبخت ہے جیسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں لینے والا بہت ہی خوش نصیب ہے۔
Flag Counter