Brailvi Books

مرآۃ المناجیح شرح مشکٰوۃ المصابیح جلد ہشتم
104 - 952
حدیث نمبر104
روایت ہے حضرت ابن عباس سے فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت اتری کہ آپ نے قریبی عزیزوں کو ڈرایئے ۱؎ تو نبی صلی الله علیہ وسلم باہر نکلے حتی کہ صفا پہاڑ پر چڑھے پھر پکارنے لگے کہ اے بنی فہر اے بنی عدی قریش کے قبیلوں کے نام لے کر حتی کہ وہ سب جمع ہوگئے ۲؎ حالت یہ ہوگئی کہ اگر کوئی آ نہ سکا تو اس نے اپنا قاصد بھیج دیا کہ جا کر دیکھے کہ کیا واقعہ ہے۳؎تو ابولہب بھی آیا اور قریش بھی۔تب فرمایا بتاؤ تو اگر میں تم کو خبردوں کہ ایک لشکر اس پہاڑ کے کنارے سے اور ایک روایت میں ہے کہ ا یک لشکر اس جنگل سے نکلے گا ۴؎ وہ تم پر حملہ کرنا چاہتا ہے کیا تم میری تصدیق کرو گے ۵؎ سب بولے ہاں ہم نے آپ پر کبھی نہ آزمایا مگر سچ ہی ۶؎ فرمایا تو میں تمہارے لیے ڈرانے والا ہوں سخت عذاب کے آگے ۷؎  ابولہب بولا کہ ہلاکت ہو تمہارے لیے کیا تم نے ہم کو اسی لیے جمع کیا تھا ۸؎ تب یہ آیت نازل ہوئی  "تَبَّتْ یَدَاۤ اَبِیۡ لَہَبٍ"۹؎(مسلم،بخاری)
شرح
۱؎ یہ حضور انور پر چوتھی قسم کی وحی آئی،پہلی وحی"اِقْرَاۡ بِاسْمِ رَبِّکَ"،دوسری وحی"یٰۤاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَاَنۡذِرْ"، تیسری وحی"مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَ مَا قَلٰی"پوری سورت چوتھی وحی یہ اس ترتیب میں اور روایات بھی ہیں۔پہلی وحی میں ذکر الله کا حکم،دوسری وحی میں حضور کی محبوبیت کااظہار،تیسری وحی میں تہذیب اخلاق پاکیزگی صفائی کا حکم،چوتھی وحی میں عزیزوں کو تبلیغ۔خیال رہے کہ یہ تربیت بہت ہی شاندار ہے پہلے اپنے اصلاح،پھر اپنی قریبی عزیزوں کی اصلاح، پھر دوسروں کی درستی،یہ ہی ترتیب جہاد میں تھی کہ پہلے قریبی کافروں پر پھر دور والوں پر،رب فرماتا ہے:"قٰتِلُوا الَّذِیۡنَ یَلُوۡنَکُمۡ مِّنَ الْکُفَّارِ"اب بھی یہ ترتیب چاہیےکہ پہلے اپنے نفس کی اصلاح،پھر قریبی عزیزوں کی، پھر دوسروں کی۔

۲؎  صوفیاء فرماتے ہیں کہ پہلی تبلیغ صفا پہاڑ پر چڑھ کر فرمائی نہ کہ بیت الله شریف میں۔اس میں اشارۃً اپنا مقام بتایا کہ پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ کر انسان دور دور کی چیز دیکھ لیتا ہے اور پہاڑ کے دونوں طرف کی خبر رکھتا ہے حضور انور انسانیت کے اعلٰی درجہ پر ہیں اور اس مقام پر ہیں جہاں کونین نظر آتے ہیں فرش پر بھی نظر رکھتے ہیں عرش پر مخلوق کی بھی خبر رکھتے ہیں،خالق کی ذات و صفات سے بھی خبردار ہیں۔شعر

ادھر الله سےواصل ادھردنیا میں ہیں شاغل	 خواص اس برزخ کبریٰ میں ہے حرف مشدد کا

حضور کی زبان مخلوق کی طرف ہے کان خالق کی طرف حضور کا ایک ہاتھ لینے والا رب کی طرف ہے دوسرا ہاتھ دینے والا ہم بھکاریوں کی طرف۔جب رب اپنے بندوں سے کچھ کہتا ہے تو حضور کی معرفت تو ہم جب رب تعالٰی سے کچھ کہیں تو حضور کی معرفت حضور برزخ کبریٰ ہیں خالق و مخلوق کے درمیان اللہم صل وسلم وبارك علیہ۔

۳؎  یہ آواز سارے مکہ میں پہنچ گئی ہر کان نے سن لی یہ بھی حضور کا معجزہ ہے ورنہ پہاڑ کی آواز نیچے نہیں پہنچتی حضرت ابراہیم کی پکار تمام ارواح کو سنا دی گئی۔

۴؎  یہاں حدیث مختصر لائی گئی،اس تبلیغ کی ابتداء یوں فرمائی کہ ارشاد فرمایا کیف انا فیکم اے اہل مکہ تم میں میں نے اپنی عمر گزاری تم نے میرے شب و روز دیکھے بتاؤ میں تم میں کیسا ہوں،سب نے یک زبان سے کہا کہ صادق الوعد ہیں امین ہیں،تب فرمایا کہ اگر میں تم کو یہ خبر دوں الخ۔جس سے پتہ لگا کہ ایمان کا پہلا رکن حضور انور کو جاننا پہچاننا ماننا ہے باقی ارکان بعد کے ہیں اسی لیے کافر کو کلمہ پڑھا کر مسلمان کرتے ہیں قرآن مجید نماز وغیرہ سب بعد کی چیزیں ہیں۔

۵؎  یعنی اگر تمہاری آنکھیں کہتی ہیں کہ اس میدان میں ایک چیونٹی بھی نہیں مگر میری زبان کہے کہ یہاں لشکر جرار ہے جو عنقریب تم پر حملہ آور ہوگا تو بتاؤ اپنی آنکھوں کو مانو گے یا میری زبان کی۔اس میں حضور انور نے اپنے علوم غیبیہ کا ان کفار سے اقرار کرایا،نبی کہتے ہی اسے ہیں جو غیبی خبریں دے جیسے رب تعالٰی نے آدم علیہ السلام کے علوم فرشتوں کو دکھائے پھرانہیں سجدے کا حکم دیا،علم غیب نبی ماننا سب سے مقدم ہے۔

۶؎  یعنی ہم نے آپ کا بچپن جوانی پختہ سال دیکھی ہے آپ کی زبان پر کبھی جھوٹ نہیں آتے دیکھا ہماری آنکھ جھوٹی ہوسکتی ہے مگر آپ کی زبان جھوٹی نہیں ہوسکتی،یہ ہے دشمنوں کی گواہی۔خیال رہے کہ الله تعالٰی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح اپنے محبوب کو مکہ معظمہ سے باہر نہیں رکھا تاکہ کفار مکہ فرعون کی طرح یہ نہ کہہ سکیں کہ آپ باہر سے علم پڑھ کر جادو سیکھ آئے ہیں بلکہ مکہ معظمہ میں ہی رکھا تاکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ان سب کے سامنے رہے اور کوئی یہ الزام نہ دے سکے،کفار مکہ نے حضور کو صادق الوعد اور امین کا لقب دیا تھا۔

۷؎ ابولہب پہلے حضور انور کا بہت مدّاح تھا یہ فرمان عالی سنتے ہی دشمن ہوگیا۔اس نے ایک بھاری پتھر دونوں ہاتھوں سے اٹھا کر حضور انور کی طرف پھینکا۔(اشعۃ اللمعات)یہ حدیث باب تغیر الناس کے بعد والے باب میں گزر گئی۔

۹؎  دونوں ہاتھ سے مراد یا تو ابولہب کی ذات ہے کہ اہل عرب گردن یا دونوں ہاتھ کہہ کر ذات مراد لیتے ہیں،یا اس کے وہ ہی دونوں ہاتھ مراد ہیں جن سے اس نے وہ پتھر اٹھایا تھا۔خیال رہے کہ اگلی تین سورتوں میں قل ہے یعنی سورۂ اخلاص اور فلق اور ناس میں مگر اس سورت میں قل نہیں تاکہ معلوم ہو کہ اپنے محبوب کا بدلہ رب خود لیتا ہے حتی کہ جو لفظ ابولہب نے حضور انور کے لیے بولے تھے وہ ہی الفاظ رب نے ابولہب کے لیے فرمائے۔
Flag Counter