Brailvi Books

مرآۃ المناجیح شرح مشکٰوۃ المصابیح جلد ہشتم
102 - 952
حدیث نمبر102
روایت ہے جناب عائشہ سے کہ حارث ابن ہشام نے ۱؎  رسول الله صلی الله علیہ و سلم سے پوچھا عرض کیا یارسول الله صلی الله علیہ و سلم آ پ پر وحی کیسے آتی ہے ۱؎  تو رسول الله صلی الله علیہ و سلم نے فرمایا کہ کبھی تو میرے پاس جھانج کی سی جھنکار آتی ہے۳؎ وہ مجھ پر بہت گراں ہوتی ہے۴؎ تو وہ مجھ سے ختم ہوتی ہے حالانکہ میں نے اس سے وہ یادکرلیا ہوتا ہے ۵؎  جو اس نے کہا اور کبھی میرے سامنے فرشتہ مرد کی شکل میں آتا ہے مجھ سے بات کرتا ہے ۶؎ جو وہ کہتا ہے محفوظ کرلیتا ہوں۷؎ جناب عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے حضور انور کو دیکھا کہ آپ پر سخت ٹھنڈے دن میں وحی نازل ہوتی تھی تو ختم ہوتی تھی اس حالت میں کہ آپ کی پیشانی پسینہ سے نچڑتی ہوتی تھی ۸؎ (مسلم،بخاری)
شرح
۱؎  اس سے معلوم ہوا کہ سب سے پہلے وحی"اِقْرَاۡ بِاسْمِ رَبِّکَ"اور دوسری وحی"یٰۤاَیُّہَا الْمُدَّثِّر"ان دونوں کے درمیان فاصلہ وہ ہے جو ہم پہلے عرض کرچکے ہیں یعنی چھ ماہ یا کم و بیش۔حارث ابن ہشام بھائی ہیں ابوجہل کے جس کا نام عمرو ابن ہشام تھا،حارث صحابی ہیں،فتح مکہ کے دن ایمان لائے ان کے لیے جناب ام ہانی نے امان لی تھی،شام میں رہے، جنگ یرموک میں    ۱۵ھ؁  میں عہد فاروقی میں شہید ہوئے،انہیں حضور نے فتح مکہ کے دن ایک سو اونٹ تالیف قلب کے لیے عطا فرمائے۔(اکمال)

۲؎  غالب یہ ہے کہ حارث کے اس سوال کے وقت ام المؤمنین عائشہ صدیقہ موجود تھیں اور ہوسکتا ہے کہ حارث نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کو یہ واقعہ سنایا ہو۔(مرقات)

۳؎  صلصلہ یا تو  مسلسل آواز کو کہتے ہیں یا وہ آواز جو لوہے کو لوہے سے لگنے سے مسلسل پیدا ہو۔جرس وہ گھنگرو وغیرہ ہیں جو جانور کے گلے یا پاؤں میں باندھ دیئے جائیں جب وہ دوڑے تو  مسلسل جھنکار پیدا ہو۔یہ مثال سمجھانے کے لیے دی گئی ہے یعنی وحی ایک بار اور مسلسل آواز میں ہوتی ہے جو بغیر غور سمجھ میں نہیں آتی کہ کیا کہا جارہا ہے۔

۴؎  کیونکہ اسے سمجھنا اس میں غور کرنا پھر اسے یاد رکھنا بیک وقت یہ تین کام کرنا پڑتے ہیں۔معلوم ہوتا ہے کہ اس صورت میں فرشتہ نہیں آتا تھا بلکہ کان میں غیبی آواز گھنگرو کی جھنکار کی طرح آتی تھی مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کویقین ہوتا تھا کہ یہ وحی الٰہی ہے۔

۵؎  یعنی قدرتی طور پر وہ مجھے یاد بھی ہوجاتی اور میں اس کا معنی مقصد مطلب اسرار سب کچھ سمجھ بھی لیتا ہوں،یہ حدیث اس آیت کی تفسیر ہے"اِنَّ عَلَیۡنَا جَمْعَہٗ وَ قُرْاٰنَہٗ"حتی کہ فرمایا "ثُمَّ اِنَّ عَلَیۡنَا بَیَانَہٗ"یہ سارے کام رب تعالٰی کے ذمہ کرم پر تھے۔

۶؎  چنانچہ اکثر حضرت جبریل دحیہ کلبی کی شکل میں آتے تھے،کبھی اجنبی شخص کی شکل میں،کبھی دوسرے لوگ بھی انہیں دیکھتے تھے کبھی نہیں مگر آواز سنتے تھے۔خیال رہے کہ فرشتے لڑکوں کی شکل میں صرف حضرت لوط علیہ السلام کے پاس آئے وہ بھی ایک بار اور کبھی عورتوں کی شکل میں نہ آئے۔یہ بھی خیال رہے کہ اگر فرشتے وحی لے کر نہ آئیں کسی اور مقصد کے لیے آئین تو ممکن ہے کہ نبی اولًا انہیں نہ پہنچانیں جیسے ابراہیم علیہ السلام فرشتوں کے لیے بھنا بچھڑا گھر میں سے لےکر آئے تھے انہیں مہمان سمجھ کر مگر یہ ناممکن ہے کہ فرشتہ وحی لائے اور نبی نہ پہچانیں کہ اس صورت میں وحی مشکوک ہوجاویں گی،انہیں یقین ہوتا ہے کہ یہ فرشتہ ہے اور جو کچھ کہہ رہا ہے وہ وحی الٰہی ہے۔

۷؎ یعنی اس فرشتے کے الفاظ دماغ میں اس کے کلام کے مضامین دل میں محفوظ کرلیتا ہوں یہ حفاظت رب کی طرف سے ہے۔

۸؎  ظاہر یہ ہے کہ حضور کی یہ حالت شریفہ دونوں قسم کی وحی میں ہوتی تھی اور یہ حالت حضور انور پر اس کلام شریف کی عظمت اس کی تجلی کی وجہ سے ہوتی ہے نہ کہ فرشتہ کی وجہ سے  اور حالت شریف صرف تبلیغی وحی آنے پر ہوتی تھی ویسے جب بھی فرشتے آتے تو حضور انور بے تکلف ان سے کلام فرماتے تھے جس کی بہت سی احادیث ہیں۔تبلیغی وحی کی شان ہی اور تھی یہاں اشعۃ اللمعات نے فرمایا کہ کبھی جناب جبریل کی ملکیت حضور کی بشریت پر غالب آتی تو جھانج کی سی آواز محسوس فرماتے اور کبھی حضور انور کی بشریت حضرت جبریل کی ملکیت پر غالب آتی تو وہ شکل انسانی میں آتے تھے،پہلی صورت میں حضور انور اپنی بشریت سے غائب بے نیاز ہوجاتے تھے،نیز یہ حالت کہ سردی میں پسینہ آجاوے یہ بھی پہلی قسم کی وحی میں ہوتا تھا جب جھانج کی سی آواز سنتے اور اپنی بشریت سے بے نیاز ہوتے تھے۔(اشعۃ اللمعات)
Flag Counter