مرآۃ المناجیح شرح مشکٰوۃ المصابیح جلد ہشتم |
روایت ہے حضرت جابر سے انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ و سلم کو فرماتے سنا آپ وحی بند ہوجانے کے متعلق خبر دیتے تھے ۱؎ فرمایا جب کہ ہم چل رہے تھے۲؎ کہ ہم نے آسمان سے ایک آواز سنی میں نے اپنی نگاہ اٹھائی تو وہ ہی فرشتہ جو میرے پاس حراء میں آیا تھا آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا تھا تو میں رعب کی وجہ سے اس سے ڈرا دیا گیا۳؎ حتی کہ زمین کی طرف مائل ہوگیا۴؎ پھر میں اپنے گھر والوں کے پاس آیا میں نے کہا مجھے چادر اوڑھاؤ مجھے چادر اوڑھاؤ انہوں نے مجھے چادر اوڑھا دی تب الله تعالٰی نے یہ آیت نازل فرمائی اے چادر اوڑھنے والے اٹھو ۵؎ ڈراؤ،اپنے رب کی بڑائی بولو،اپنے کپڑے پاک رکھو اور گندگی دور رکھو ۶؎ پھر وحی گرم ہوگئی اور لگاتار جاری ہوگئی ۷؎(مسلم،بخاری)
شرح
۱؎ معلوم ہوا کہ حضور انور اپنے حالات خود صحابہ کرام سے بیان فرماتے تھے کہ جب عارضی طور پر وحی بند ہوگئی تو ہمارا کیا حال تھا۔ ۲؎ یہ واقعہ مکہ معظمہ بلکہ غار حرا کا ہے۔(مرقات)وہاں ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ غیبی آواز آسمان کی جانب سے سنی تھی۔معلوم ہوتا ہے کہ اس آواز میں یا تو الفاظ تھے نہیں یا تھے تو معمولی تھے اس لیے حضور نے اسے آواز فرمایا کلام نہ کہا۔ ۳؎ جئثت بنا ہے جائثۃ سے بمعنی گھبراہٹ ڈر،جئثت مجہول فرمانے میں اسطرف اشارہ ہے کہ یہ رعب رب کی طرف سے میرے دل میں ڈالا گیا،یہ رعب اس کلام الٰہی کا تھاجو حضور پر پہلے نازل ہوا تھا۔خیال شریف یہ ہوا کہ پھر کوئی آیت نازل ہوگی دل میں بے قراری اور رعب پیدا ہوگیا۔حضرت جبریل اس وقت بھی شکل انسانی میں تھے ان سے رعب ہونے کی وجہ ہی کوئی نہیں اپنی صورت میں تو صرف دو بار حاضر ہوئے۔ ۴؎ ھوی کے معنی ہیں زمین پر لپٹ جانا اوندھے لیٹ کر اپنے ہاتھ پاؤں زمین پر چمٹا دینا۔ ۵؎ مدثر بنا ہے دثار سے،عربی میں شعار نیچے والے کپڑے کو کہتے ہیں جو جسم سے ملا ہوا ہو،دثار اوپر والے کپڑے کو، مدثر کے معنی ہوئے چادر کمبل اوڑھنے والے۔صوفیاء فرماتے ہیں کہ اس کے معنی ہیں اے بشریت کی چادر اوڑھ کر مخلوق کے سامنے جانے والے۔نورمطلق نے بشریت کی چادر اوڑھی تب مخلوق آپ سے فیض لے سکی ہے۔شعر لباس آدمی پہنا جہاں نے آدمی جانا مزمل بن کے آئےتھے ہویدا بن کے نکلیں گے یہاں مرقاۃ نے اس کے معنی کیے اے نبوت کی عبا اوڑھنے والے،رسالت کا بوجھ اٹھانے والے۔اس کی اور بہت نفیس نفیس تفسیریں ہمارے حاشیہ قرآن نور العرفان فی تفسیر القرآن میں ملاحظہ کرو وہاں لکھا ہے کہ اپنی چادر کرم میں اپنی امت کو چھپانے والے۔ ۶؎ یعنی پیارے اٹھو تاکہ دنیا تمہارے سہارے اٹھے۔خیال رہے کہ سورۂ مزمل میں بھی ہے"یٰۤاَیُّہَا الْمُزَّمِّلُ قُمِ الَّیۡلَ اِلَّا قَلِیۡلًا"وہاں قیام سے مراد ہے نماز میں کھڑا ہونا اوریہاں قیام سے مراد ہے نبوت کی تبلیغ کے لیے اٹھنا یا وہاں نبوت کے لیے اٹھنا مراد ہے یہاں رسالت و تبلیغ کے لیے اٹھنا مراد ہے۔(مرقات) ۷؎ یعنی اپنے جسم کے کپڑے پاک و صاف رکھو۔معلوم ہوا کہ پاکیزگی کا حکم پہلے آیا نماز کا حکم بہت بعد میں۔صوفیاء فرماتے ہیں کہ کپڑوں سے مراد ہے نفس کے صفات،انہیں پاک کرنے سے مراد ہے برائیوں سے دور رکھنا۔(اشعہ)