میں نے اپنی اولاد کو دوسروں کا حق نہیں دیا:
یہ تو کسی کے انتقال کے بعد ا س کے مال سے متعلق بزرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْن کا حال تھا جبکہ اپنے مال اور اس کے ہونے والے ورثاء کے حوالے سے بزرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْن کس قدر محتاط تھے، اس کی جھلک بھی ملاحظہ ہو۔
چنانچہ مروی ہے کہ حضرت عمر بن عبد العزیز رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے وصال کے وقت مسلمہ بن عبدالملک ان کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کی:اے امیرالمؤمنین! آپ نے ایسا کام کیا ہے جو آپ سے پہلے کسی نے نہیں کیا،وہ یہ کہ آپ نے اولاد تو چھوڑی ہے لیکن ان کے لئے مال نہیں چھوڑا (کیونکہ آپ عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ کے پاس مال تھاہی نہیں بلکہ وہ تنگدستی کی زندگی گزار رہے تھے)۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا:مجھے بٹھادو۔چنانچہ آپ کو بٹھادیا گیا،پھرآپ نے فرمایا: تم نے جو یہ کہا کہ میں نے اپنی اولاد کے لئے مال نہیں چھوڑا،اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں نے ان کا حق ماردیا ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ میں نے انہیں دوسروں کا حق نہیں دیا اور میری اولاد کی دو میں سے کوئی ایک حالت ہو گی:
(1)…وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کریں گے۔اس صورت میں اللہ تعالیٰ انہیں کافی ہو گا کیونکہ وہ نیکوں کا والی ہے۔
(2)…وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کریں گے۔اس صورت میں مجھے اس بات کی پرواہ نہیں کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا (کیونکہ وہ اپنے اعمال کے خود جواب دہ ہیں۔)
اپنے مال سے متعلق ایک شرعی حکم:
مذکورہ بالا حکایات کو سامنے رکھتے ہوئے ہر شخص اپنے حال پر غور کر سکتا