کھڑے ہوکر کہہ سکتا ہے تو اتنا ہی قیام فرض ہے اور اگر اس کی بھی اِستطاعت نہ ہو یعنی نہ خود کھڑا ہوسکتا ہے اور نہ ہی کسی چیز سے ٹیک لگا کر کھڑا ہوسکتا ہے اگرچہ کچھ دیر کے لئے ہی سہی تو بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے۔ یونہی کھڑے ہونے میں پیشاب کا قطرہ آتا ہے یا چوتھائی سَتْر ُکھلتا ہے یا بیماری وغیرہ کی وجہ سے ایسا لاغر و کمزور ہوچکا ہے کہ کھڑا تو ہوجائے گا مگر قراء ت نہ کر پائے گا تو قیام ساقط(1) ہوجائے گا۔مگر اس بات کا خیال رہے کہ ُسستی و کاہلی اور معمولی دِقَّت کو مجبوری بنانے سے قیام ساقط نہیں ہوتا بلکہ اس بات کاگمان غالب ہو کہ قیام کرنے سے مرض میں زیادتی ہوجائے گی یا دیر میں اچھا ہو گا یا ناقابلِ برداشت تکلیف ہو گی تو بیٹھ کر پڑھنے کی اجازت ملتی ہے۔
اس فرضیت ِقیام کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگالیجئے کہ جماعت سے نماز پڑھنے کے لئے جائے گا تو قیام نہ کرسکے گا، گھر میں پڑھے تو قیام کے ساتھ پڑھ سکتا ہے تو شرعاً حکم یہ ہے کہ گھر میں قیام کے ساتھ نماز پڑھے، اگر گھر میں جماعت میسر آجائے تو فَبِہَا ورنہ تنہا ہی قیام کے ساتھ گھر میں پڑھنے کا حکم ہے۔
الغرض سچی مجبوریوں کی بناء پر قیام ساقط ہوتا ہے، اپنی مَن گھڑت بنائی ہوئی نام کی مجبوریوں کا شرعاً کسی قسم کا کوئی لحاظ نہیں ہوتا۔
تنبیہ: قیام کے ساقط ہونے کی ایک اہم صورت یہ بھی ہے کہ اگرچہ قیام پر قادر ہو مگر سجدہ زمین پر یا زمین پر اتنی اونچی رکھی ہوئی چیز پر کہ جس کی اونچائی بارہ اُنگل سے زیادہ نہ ہو کرنے سے عاجز ہو تو اس سجدۂ حقیقی سے عاجز ہونے کی صورت میں اصلاً قیام ساقط ہوجاتا ہے اسے اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے ورنہ جب
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
1……… یعنی معاف ہونا