(اگر مریض قیام کرنے سے عاجز ہو)، چا ہے وہ عجز حقیقی ہو یا حکمی مثلاً: فی نَفْسِہٖ قیام پر قادر تو ہے مگر قیام کی وجہ سے مرض بڑھ جانے یا دیر سے صحت یاب ہونے کا خوف ہو، یا قیام کی وجہ سے شدید درد محسوس ہوتا ہو تو ان صورتوں میں (بیٹھ کر رکوع و سجود کے ساتھ نماز ادا کرے گا)، اس کی دلیل حضرت عمران بن حُصَین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی روایت ہے کہ جسے امام مسلم کے علاوہ محدثین کی جماعت نے روایت کیا کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ مجھے بواسیر کی بیماری تھی تو میں نے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے نماز کے متعلق سوال کیا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’کھڑے ہو کر نماز پڑھو، اگر اس کی اِستطاعت نہ ہو تو بیٹھ کر اور اگر اس کی بھی اِستطاعت نہ ہو تو کروٹ کے بل لیٹ کر نماز پڑھو، نسائی شریف کی روایت میں مزید اس بات کا بھی اضافہ ہے کہ اور اگر اس کی بھی اِستطاعت نہ ہو تو چت لیٹ کر نماز پڑھو، اللہ تعالیٰ کسی جان پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔‘‘ البتہ اگر قیام پر قادر بھی ہواور تھوڑی بہت مشقت اسے ہوتی ہے مگر قیام کی وجہ سے اسے درد شدید نہیں ہوگا اور نہ ہی مرض بڑھنے یا دیر سے شفایاب ہونے کا خوف ہے تو (اس معمولی سی تکلیف کی وجہ سے) قیام ترک کرنے کی اجازت نہیں ہوگی بلکہ عصا یا خادم پر ٹیک لگا کر قیام کرسکتا ہو تو امام حَلْوانی عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ فرماتے ہیں کہ صحیح قول کے مطابق اس شخص پر ٹیک لگا کر قیام کرنا لازم ہے، اور اگر کچھ دیر کھڑا ہوسکتا ہے تو اسی قدر قیام لازم ہے حتّٰی کہ اگر صرف تکبیر ِتحریمہ کھڑے ہوکر کہہ سکتا ہے تو اتنا ہی لازم ہے کہ کھڑے ہوکر تکبیر ِتحریمہ کہے پھر بیٹھ جائے۔ (اور اگر مریض رکوع و