میں کرنی پڑتی ہے، بعض لاپرواہی سے ایسے ہی نیت باندھ لیتے ہیں صف پوری نہیں کرتے، اس جانب بھی توجہ دینی چاہئے، پہلے سے کرسیاں نہ سجائی جائیں ، کوئی معذور و مریض ہوگا تو پہلی دوسری تیسری جس صف میں اسے جگہ ملے گی اسی کے کنارے اپنی کرسی رکھ لے گا۔
عام طور پر کرسیوں کی دیکھ بھال بھی مسجد کے مؤذن اور خادم کو کرنی ہوتی ہے یہ بھی بلا وجہ کی ایک دِقَّت ان کے سر ڈالنا ہے، بعض اوقات بعض بزرگوں کی مسجد کے مؤذن یا خادم سے اُلجھنے اور انہیں جھاڑنے کی خبریں بھی ملتی رہتی ہیں اور بہت سے لوگوں نے ہوسکتا ہے اس کا مشاہدہ بھی کیا ہو، اس لئے کرسی پر اگر مسجد میں بیٹھنا ہی ہے تو تمام تر شرعی اور عقلی تقاضوں اور احتیاطوں کے ساتھ بیٹھا جائے تاکہ نماز بھی درست ادا ہو اور دوسرے نمازیوں کو بھی کسی قسم کی پریشانی و وحشت نہ ہو۔
ایک اور مسئلہ جو عام طور پر جُمُعہ کی نماز میں دیکھا جاتا ہے کہ کرسیاں چونکہ اگلی صفوں میں کناروں پر رکھی ہوتی ہیں اور بعض معذور و مجبور حضرات دیر میں آتے ہیں اور دورانِ خطبہ اپنی کرسی تک پہنچنے کے لئے گردنوں کو پھلانگتے ہوئے جاتے ہیں ، یہ بھی جائز نہیں کہ حدیث شریف میں ہے کہ ’’جس نے جمعہ کے دن لوگوں کی گردنیں پھلانگیں اس نے جہنم کی طرف پل بنایا۔‘‘(1) صدر الشریعہرَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ یہ حدیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ حدیث میں لفظ ’’اتخذ جسرًا‘‘ واقع ہوا ہے اس کو معروف و مجہول دونوں طرح پڑھ سکتے ہیں اور یہ ترجمہ معروف
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
1…سنن الترمذی، ابواب الجمعۃ، باب ما جاء فی کراھیۃ التخطی یوم الجمعۃ، ۲/ ۴۸، الحدیث: ۵۱۳۔