Brailvi Books

خوشبودار قبر
27 - 32
 چیک اپ کے بعد دوا تجویز کردی۔ چنانچہ انہیں  مجوزہ دوائیں  کھلانا شروع کیں  مگر ’’جوں  جوں  دوا کی مرض بڑھتا گیا‘‘کے مصداق محمد رفیق عطاری کو افاقہ نہ ہوا ۔
	چنانچہ اسلام آباد کے ایک مشہور ہسپتال میں بھی علاج کرایا مگر ان کی تکلیف میں  کمی نہ آئی جب تکلیف بڑھتی توبے صبری کا اظہار کرنے کے بجائے ان کی زبان پر ’’سیّدنا کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم‘‘کاوِرد جاری ہوجاتا۔ گھروالوں  نے کبھی ان سے بے صبری کے الفاظ نہیں  سنے، بلکہ ان کی زبان پر ذکرودرودہی جاری رہتا۔ یہ سب دعوتِ اسلامی کا فیضان تھا کہ مرحوم بھائی صبروشکر کے ذریعے رضائے الٰہی کا حقدار بننے کے جذبے سے سرشار تھے ۔ شعبان المعظم کے مبارک مہینے کی بہاریں  جوں  جوں  قریب آرہی تھیں  ان کی خوشی بھی بڑھتی جارہی تھی۔ بارہا یہ نعرہ بلند کرتے’’ آقا کا مہینہ ‘‘قریب آگیا ، ’’ آقا کا مہینہ ‘‘قریب آگیا ، مگر انہیں  کیا خبر تھی کہ ان کادنیائے فانی سے دارِ بقا کی طرف کوچ کرنے کا وقت بھی قریب آچکا ہے۔ وفات سے ایک دن قبل ہمشیرہ کو بلایا انہیں  مدنی قافلے میں  یاد کیا ہوا شجرہ عطاریہ سنایا ۔ اگلے دن کا سورج طلوع ہوا مگر ان کی زندگی کا سورج غروب ہونے کے لمحات بھی قریب آن پہنچے ، ان پر اچانک نزع کی کیفیت طاری ہوگئی ، سب گھروالے ان کی نازک حالت دیکھ کر گھبراگئے اور انہیں  ہسپتال لے جانے کی تیاری کرنے لگے۔ ان کی زبان پر’’ سیّدنا کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم،  سیّدنا کریم