دیکھ کر کُڑھتے، میری اصلاح کی مختلف تدبیریں کرتے مگر میں تھا کہ ٹَس سے مَس نہ ہوتا۔ افسوس والد صاحب میرے سُدھرنے کے سُہانے سپنے دیکھتے دیکھتے دارِ فنا سے دارِ بقا کی طرف کوچ کرگئے لیکن مجھے نشے کے عِفْرِیت سے چھٹکارانہ ملا۔
زندگی کے لیل و نہار اسی طرز پر گزرتے جارہے تھے نجانے مزید کب تک نشے کی آگ میں جھُلستا رہتا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا مجھ پر کرم ہو گیا اور میری اصلاح کا سامان بن گیا، ہوا کچھ یوں کہ ماہِ ربیع الاوّل ۱۴۱۳ھ میں ، مَیں اپنی بہن کے گھر مرکز الاولیاء (لاہور) آگیا۔ یہاں بھی نشہ آور اشیاء اپنے ساتھ لے آیا اور چُھپ چُھپ کر نشے کی آگ میں پُھنکتا رہا۔ خوش قسمتی سے میرا بھانجا دعوتِ اسلامی کے مدرسۃالمدینہ سے حفظِ قراٰن کی سعادت پاکر تقریباً اڑھائی سال تک قراٰنِ پاک پڑھانے کی بھی سعادت پاچکا تھا، وہ وقتاًفوقتاً مجھ پرانفرادی کوشش کرتارہتاچونکہ ماہِ ربیع الاوّل کی مبارک ساعتیں تھیں۔ مسلمانوں میں سیرتِ مصطفٰے پرعمل کرنے کا جذبہ بیدار کرنے کے لیے محافلِ میلاد کی دھومیں مچی ہوئی تھیں ، لہٰذا میرابھانجامجھے دعوتِ اسلامی کے تحت ہونے والے اجتماعِ ذکرو نعت میں شریک ہونے کا ذہن دیتا، میں اُسے ٹال دیتا، مگراس نے ہمّت نہ ہاری اور انفرادی کوشش کا سلسلہ جاری رکھا۔ چنانچہ 19 ربیع الاوّل کومرکز الاولیاء (لاہور) کے علاقے فتح گڑھ میں دعوتِ اسلامی کے تحت ایک عظیم الشان اجتماعِ