سانسیں پوری کرچکے تھے ، دارِفانی سے دارِ بقاکی طرف کوچ کرنے کا وقت آچکا تھا،عزیز ورفقاقریب ہی افسرد ہ کھڑے تھے کہ اچانک جنید عطاری کی زبان پر اللہ اللہ، اللہ اللہ کی صدائیں بلند ہوئیں اور یہ پیغام دیتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوگئے کہ
ایک دن مرنا ہے آخرت موت ہے کرلے جوکرناہے آخرموت ہے
ایک سچے مسلمان کی شان
ان کے انتقال پر گھروالے غم سے نڈھال ہوگئے، جب ان کے جنازے کو گھرلایا گیا تو علاقے بھر میں غم کے بادل چھاگئے۔ کثیر اسلامی بھائی ان کے جنازے میں شریک ہوئے، اہلِ علاقہ کا کہنا تھا کہ ہم نے اس سے پہلے کسی اور کے جنازے میں اتنے لوگ نہیں دیکھے جتنے جنید عطاری کے جنازے میں دیکھے۔ بالآخر ذکرُاللہ اور صلوٰۃ وسلام کی صداؤں میں انہیں علاقے کے قبرستان میں سپردِ خاک کردیا گیا۔ ان کی جدائی پر بہت سی آنکھیں پرنم تھیں۔ ہمارا حسن ظن ہے کہ مرحوم سنّتوں پر عمل کرنے اور سنّتوں کی دعوت عام کرنے کی برکت سے قبر میں رحمتِ الٰہی کے سائے میں ہوگا۔ اگلے دن جب ان کے کچھ دوست احباب ان کی قبر پر گئے تو دیکھا کہ ان کی قبر ایک جانب سے کچھ بیٹھ گئی ہے، جب قبر کود رست کرنے لگے تو اچانک انہیں مشک و عنبر سے بھی بڑھ کر ایک عجب بھینی