Brailvi Books

خونی کی توبہ
18 - 31
آج کل کے عام نوجوانوں کی طرح بننے سنورنے کا شائق تھا،فکر آخرت کا دور دور تک نام ونشان نہ تھا ، بس دنیا کی حیات کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھا تھا شاید یہی وجہ تھی کہ نیکیوں سے کوسوں دور اور مختلف گناہوں میں مَخْمور اپنی زیست کے قیمتی لمحات برباد کررہاتھا، نمازیں چھوڑدینا، گانے باجے سننا اور فلمیں ڈرامیں دیکھنا میرا معمولِ زندگی بن چکا تھا۔ الغرض  دل و دماغ پر غفلت کے پردے پڑے ہوئے تھے ۔ مَعَاذَاللہ داڑھی منڈوا کر دوستوں کے جھرمٹ میں جانا اپنے لیے باعثِ اِفتخار سمجھتاتھا۔ اسی طرح زندگی بسر ہورہیتھی مگر مجھے اپنی انمول سانسوں کے ضِیاع کا کوئی احساس نہ تھا ۔میرے راہ سنّت پر گامزن ہونے کا سبب کچھ یوں بنا ہمارے علاقے میں دعوت اسلامی سے وابستہ اسلامی بھائی رہتے تھے جونیکی کی دعوت دے کر لوگوں کو ہفتہ وار سنّتوں بھرے اجتماع میں لے جاتے تھے۔ بارہا مجھے بھی سمجھاتے اور ساتھ چلنے کا کہتے، اُن کی پیاربھری دعوت کی بدولت مجھے بھی اجتماع میں جانے کی سعادت نصیب ہوتی مگر میں پرسوز بیان، رقت انگیز دعا سے برکتیں پانے کے بجائے باہر گھوم پھر کر اپنا وقت ضائع کرتا اور علم وعمل کے دریا کے پاس جانے کے باوجود نفس وشیطان کے بہکاوے میں آکر سیراب ہونے سے محروم رہتا اور پیاسا لوٹ آتا۔ ہفتہ وار اجتماع میں میری ان بے اعتنائیوں کا سلسلہ چلتا رہا۔ آخرکار میری قسمت کا ستارہ چمک اُٹھا خوش قسمتی سے ایک بار امیراہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا انقلابی کیسٹ  بیان ’’کالے بچھو‘‘سننے کی سعادت مل گئی جس میں داڑھی منڈوانے والے کا عبرت ناک واقعہ اور وعیدیں سن کر آنکھوں پر بندھی غفلت کی پٹی کھل گئی،