ہوکر دن رات رو رو کر خداتعالیٰ سے اپنی تندُرُستی کے لیے دعائیں مانگتارہتاہوں۔ امیرالمؤمنین حضرتِ سیِّدُنا علی المرتضیٰ شیرِ خداکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمکواس کی داستانِ عبرت نشان سن کر اس پر بڑا رَحْم آیا اور فرمایا: اے شخص !اگر واقِعی تمہارے والد صاحِب تم سے راضی ہو گئے تھے تو اطمینان رکھو اِنْ شَآءَ اللہ سب بہتر ہو جائے گا، پھر آپکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمنے چند رَکْعت نَماز پڑھ کر اُس کیلئے دعائے صِحّت کی پھرفرمایا :’’قُمْ!یعنی کھڑا ہو!‘‘یہ سنتے ہی وہ بِلاتکلُّف اُٹھ کر کھڑا ہوگیا اورچلنے پھرنے لگا۔ (مُلَخَّص ازحجۃُ اللہ علَی العالمین ص۶۱۴)
کیوں نہ مشکلکشا کہوں تم کو
تم نے بگڑی مِری بنائی ہے
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
اولادِ علی کے ساتھ حُسنِ سُلوک کا بدلہ
ابوجعفر نامی ایک شخص کوفہ میں رہتاتھا،لین دین کے مُعامَلے میں وہ ہر ایک کے ساتھ حُسنِ سُلُوک سے پیش آتا تھا،بِالخصوص اولادِ علی کاکوئی فرد اس کے یہاں کچھ خریداری کرتا تو وہ جتنی بھی کم قیمت ادا کرتا قبول کر لیتا ورنہ حضرتِ مولیٰ علی شیرِ خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے نام قرض لکھ دیتا ۔ گردِشِ دَوراں کے باعِث وہ مُفلِس ہو گیا۔ ایک دن وہ گھر کے دروازے پر بیٹھا تھا کہ ایک آدَمی اُدھر سے گزرا ، اور اُس نے مذاق اُڑاتے ہوئے کہا: ’’تمہارے بڑے مقروض (یعنی حضرتِ مولیٰ علی شیرِ خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم) نے قرضہ اد ا