کیا یا نہیں ؟‘‘ اُس کو اِس طنز کا سخت صدمہ ہوا۔رات جب سویا تو خواب میں جنابِ رسالت مآب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زِیارت سے شَرَفْیاب ہوا،حَسَنَینِ کریمین(یعنی حسن و حُسین) رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَابھی ہمراہ تھے،آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے شہزادگان سے دریافت کیا: تمہارے والد صاحِب کا کیا حال ہے؟ حضرتِ مولیٰ علی شیرِ خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے پیچھے سے جواب دیا: یَا رَسُوْلَ اللہ!میں حاضِر ہوں ۔ارشاد ہوا: ’’کیا وجہ ہے کہ اِس کا حق ادا نہیں کرتے ؟‘‘ انہوں نے عَرْض کی : یَا رَسُوْلَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ!میں رقم ہمراہ لایا ہوں۔ فرمایا: اس کے حوالے کر دو ۔ حضرتِ مولیٰ علی شیرِ خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے ایک اُونی تھیلی ان کے حوالے کر دی اور فرمایا:’’ یہ تمہارا حق ہے۔‘‘رسولِ مکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا:’’ اِسے وصول کر لو اور اس کے بعد بھی ان کی اولاد میں سے جو قرض لینے آئے اس کو محروم نہ لوٹانا ، آج کے بعد تمہیں فقر وفاقہ اور مُفلِسی وتنگ دستی کی شکایت نہیں ہو گی ۔‘‘جب بیدار ہوا تو وہ تَھیلی اُس کے ہاتھ میں تھی ! اُس نے اپنی بیوی کو بُلا کر کہا: یہ تو بتاؤ کہ میں سویا ہوا ہوں یا جاگ رہا ہوں ؟ اُس نے کہا : آپ جاگ رہے ہیں ۔وہ خوشی کے مارے پھولا نہیں سماتاتھا ،سارا قِصّہ اپنی زوجۂ محترمہ سے بیان کیا ،جب مقروضوں کی فہرست دیکھی تو اس میں حضرتِ مولیٰ علی شیرِ خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے نام ذرّہ بھر قرضہ باقی نہیں تھا ۔ (یعنی فہرست سے وہ تمام لکھا ہوا قرضہ صاف ہو چکاتھا) (شَواہِدُ الحق ص۲۴۶)