Brailvi Books

کراماتِ شیر خدا
8 - 96
وَجْہَہُ الْکَرِیْماپنے دونوں  شہزادوں  حضرتِ سیِّدُنا امام حسن وامام حسینرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے ساتھ حرمِ کعبہ میں  حاضِر تھے کہ دیکھاوہاں  ایک شخص خوب رو رو کر اپنی حاجت کے لیے دُعا مانگ رہا ہے ۔ آپکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمنے حکم دیا کہ اُس شخص کو میرے پاس لاؤ ۔ اِس شخص کی ایک کروٹ چونکہ فالج زدہ تھی لہٰذا زمین پر گھسٹتا ہوا حاضِر ہوا، آپ  کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمنے اُس کا واقِعہ دریافت فرمایا تو اُس نے عرض کی:یا امیرَالمؤمنین !میں  گناہوں  کے مُعامَلے میں  نہایت بے باک تھا،میرے والدِ محترم جو کہ ایک نیک و صالِح مسلمان تھے،مجھے باربار ٹوکتے اور گناہوں  سے روکتے تھے ، ایک دن والِدِ ماجد کی نصیحت سے مجھے غصّہ آ گیا اور میں نے ان پر ہاتھ اُٹھادیا!میر ی مار کھا کر وہ رنج وغم میں  ڈوبے ہوئے حرمِ کعبہ میں آئے اور انہوں  نے میرے لئے بد دُعا کردی،اُس دعاکے اثر سے اچانک میری ایک کَروٹ پر فالِج کا حملہ ہوگیااورمیں  زمین پر گِھسٹ کر چلنے لگا۔ اِس غیبی سزاسے مجھے بڑی عِبرت حاصل ہوئی اورمیں  نے روروکر والدِ محترم سے مُعافی مانگی، انہوں  نے شفقتِ پِدری سے مغلوب ہوکر مجھ پر رَحم کھایا اور مُعاف کردیا۔پھر فرمایا:’’بیٹا چل! میں  نے جہاں  تیرے لیے بد دعا کی تھی وہیں  اب تیرے لئے صِحّت کی دُعا مانگوں  گا۔‘‘ چُنانچِہ ہم باپ بیٹے اُونٹنی پرسُوا ر ہو کر مکۂ معظمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماًآرہے تھے کہ راستے میں  یکایک اُونٹنی  بِدک کر بھاگنے لگی اور میرے والدِ ماجد اُس کی پیٹھ پر سے گر کر دوچَٹانوں  کے درمیان وفات پاگئے۔ اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ اب میں  اکیلا ہی حرمِ کعبہ میں  حاضِر