عید کے دوسرے روز نمازِ عشاء کے بعدمدینہ مسجد ناگے شاہ روڈ پرفیض دین عطاری کی میت جب نمازِ جنازہ کے لیے لائی گئی تواس قدرہجوم تھاکہ روڈپر تِل دھرنے کی جگہ نہ تھی ۔ہر طرف سبزسبز عماموں کی بہاریں تھیں ،بڑا ہی روح پرور منظر تھا،جونہی کسی جانب سے’’ اُذْکُرُوْا اللہ‘‘کی صدابلندہوتی تو ہزاروں لوگ مل کر اللہ،اللہ کا ذِکر شروع کردیتے ، کبھی’’ صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب‘‘کی صدا پر دُرُود و سلام کے نعروں سے فضا گونجنے لگتی۔ نمازِجنازہ میں شریک اسلامی بھائیوں کا بیان ہے کہ ہم نے شہدادپورکی تاریخ میں اتناجمِ غفیر کسی جنازے میں نہیں دیکھا۔ جب فیض دین عطاری علیہ رحمۃ اللہ الباری کاآخری دِیدارکرایاگیاتو لوگ پروانہ وار ٹوٹ پڑے۔ جنازے میں شریک ہرآنکھ ان کی جدائی پراشکبارتھی۔ فیض دین عطاری علیہ رحمۃ اللہ الباری کے ماتھے پر’’داغِ سجدہ‘‘ جگمگارہاتھانیز چہرے پر مسکراہٹ ایسے کھیل رہی تھی گویاابھی اُٹھ کربیٹھ جائیں گے۔ بالآخر مرحوم کو ان کی وصیت کے مطابق سبز عمامہ شریف سجا کرناگے شاہ بخاری قبرستان میں عزیزوں کی آہوں اوردُرُودوسلام کی صداؤں میں سپردِخاک کردیا گیا۔بعدِ تدفین ایک اسلامی