اے خاصۂ خاصانِ رُسُل وَقتِ دُعا ہے اُمّت پہ تِری آ کے عجب وقت پڑاہے
جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے پَردَیس میں وہ آج غریبُ الغُربا ہے
جس دین کے مدعو تھے کبھی قیصر و کِسریٰ خود آج وہ مہمان سَرائے فُقَرا ہے
وہ دین ہوئی بزمِ جہاں جس سے فَرُوزاں اب اس کی مجالس میں نہ بَتی نہ دِیا ہے
جس دین کی حُجت سے سب اَدیان تھے مغلوب اب مُعترِض اس دین پہ ہر ہَر زہ سَرا ہے
چھوٹوں میں اطاعت ہے نہ شفقت ہے بڑوں میں پیاروں میں مَحبت ہے نہ یاروں میں وفا ہے
گو قوم میں تیری نہیں اب کوئی بڑائی پر نام تری قوم کا یاں اب بھی بڑا ہے
ڈر ہے کہیں یہ نام بھی مٹ جائے نہ آخر مُدّت سے اسے دَورِ زماں میٹ رہا ہے
وہ قوم کہ آفاق میں جو سَر بَفلک تھی وہ یاد میں اَسلاف کے اب رُو بَقضا ہے
جو قوم کہ مالِک تھی عُلُوم اور حِکَم کی اب علم کا واں نام نہ حکمت کا پتا ہے
کھوج ان کے کمالات کا لگتا ہے اب اتنا گم دَشت میں اک قافِلہ بے طَبَل و دَرا ہے
جو کچھ ہیں وہ سب اپنے ہی ہاتھوں کے ہیں کرتُوت شکوہ ہے زمانے کا نہ قسمت کا گِلا ہے
دیکھے ہیں یہ دن اپنی ہی غفلت کی بدولت سچ ہے کہ بُرے کام کا انجام بُرا ہے
فریاد ہے! اے کشتی ٔ امّت کے نگہباں ! بیڑا یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے
اے چشمۂ رحمت بِاَبِی اَنتَ وَ اُمِّی دنیا پہ ترا لطف سدا عام رہا ہے
جس قوم نے گھر اور وطن تجھ سے چُھڑایا جب تُو نے کیا نیک سُلوک ان سے کیا ہے
سو بار ترا دیکھ کے عَفو اور تَرَحُّم ہر باغی و سرکش کا سر آخر کو جھکا ہے
برتاؤ ترے جبکہ یہ اَعدا سے ہیں اپنے اَعدا سے غلاموں کو کچھ امّید سِوا ہے
کر حق سے دعا اُمّتِ مرحوم کے حق میں خطروں میں بہت اِس کا جہاز آکے گھرا ہے
اُمّت میں تری نیک بھی ہیں بد بھی ہیں لیکن دِلدادہ ترا ایک سے ایک ان میں سِوا ہے
ایماں جسے کہتے ہیں عقیدے میں ہمارے وہ تیری مَحَبَّت تری عِتْرَت کی وِلا ہے