Brailvi Books

جوشِ ایمانی
8 - 24
 سرشار تھے اور آہ!  آج کا مسلمان اکثر کمزوریٔ ایمان کا شکار ہے۔   اُن کے پیشِ نظر ہر دم اللہ و رسول  عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رضا ہوا کرتی تھی مگر ہائے افسوس!  آج کے مسلمانوں کی اکثریت کی اب اس طرف کوئی توجُّہ نہیں ۔  وہ اللہ و رسول  عَزَّ وَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی مَحَبَّتسے سرشارتھے اور وائے بدنصیبی!  آج کے مسلمانوں کی بھاری اکثریت دنیا کی مَحَبَّتمیں مُستغرق    (مُسْ۔  تغْ۔ رَق)   ہے۔  وہ اعلیٰ کردار کے مالک ہوا کرتے تھے مگر آج کے اکثر مسلمان فَقَط گُفتار    (یعنی باتوں )    کے غازی بن کر رہ گئے ہیں ۔  آہ!  صد ہزار آہ!  ہم نے دنیا کی مَحَبَّتمیں ڈوب کر،     رِضائے الٰہی کے کاموں سے دور ہو کر،     اپنی زندگیوں کو گناہوں سے آلود کر کے،     اپنے میٹھے میٹھے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
 کی پیاری پیاری سنّتوں کے سانچے میں خود کو ڈھالنے کے بجائے اغیار کے فیشن کو اپنا کر اپنی حالت خود آپ بِگاڑ ڈالی ہے۔  پارہ 13 سُوْرَۃُ  ا لرَّعْدکی گیارہویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:  
اِنَّ اللّٰهَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْؕ-
ترجَمۂ کنزالایمان: بیشک اللہ  کسی قوم سے اپنی نعمت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدل دیں ۔  
      افسوس!  صد ہزار افسوس ! بے عملی کے سبب ہم ذلّت ورُسوائی کے عمیق گڑھے میں نہایت ہی تیزی کے ساتھ گرتے چلے جارہے ہیں ۔  ایک وقت وہ تھا جب کُفّار مسلمان کے نام سے لَرزَہ بَراَنْدام ہو جایا کرتے تھے اور آج اِنقلابِ مَعکُوس نے مسلمانوں کو کفّار سے خوفزدہ کر رکھا ہے۔       ؎