کرنا، اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ عزّت و اکرام کیساتھ جنّت میں رہو گے۔ ‘‘ جنگ میں حضرت سیِّدتُنا خنساء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاکے چاروں شہزادوں نے بڑھ چڑھ کرکُفّار کا مُقابَلہ کیا اور یکے بعد دیگرے جامِ شہادت نوش کرگئے۔ جب ان کی والِدۂ محترمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کو ان کی شہادت کی خبر پہنچی تو اُنہوں نے بجائے واوَیلا مچانے کے کہا: اُس پیارے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا شکر ہے جس نے مجھے چار شہید بیٹوں کی ماں بننے کا شَرَف عطا فرمایا۔ مجھے اللّٰہُ رَبُّ الْعِزَّت کی رحمت سے اُمّید ہے کہ میں بھی ان چاروں شہیدوں کے ساتھ جنت میں رہوں گی۔ (اُسْدُ الْغابَۃ فِی مَعْرِفَۃِ الصَّحابَۃ ج۷ ص۱۰۰ ۔ ۱۰۱)
غلامانِ محمد جان دینے سے نہیں ڈرتے
یہ سر کٹ جائے یا رہ جائے کچھ پروا نہیں کرتے
اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
گُفتار کے غازی
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! آخِر وہ کون سا جذبہ تھا جس نے ہر مرد و عورت بلکہ بچّے بچّے کو اسلام کا شیدائی بنادیا تھا۔ وہ کامِلُ الایمان مومِن تھے، وہ جوشِ ایمانی کے جذبے سے