رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہسے مروی ہے : مَنْ غَدَا وَ رَاحَ وَ ہُوَ فِیْ تَعْلِیْمِ دِیْنِہِ فَہُوَ فِی الْجَنَّۃِ یعنی ’’ جو اپنے دین کا علم سیکھنے کیلئے صبح کو چلا یا شام کو چلا وہ جنّتی ہے۔ ‘‘ (حِلْیَۃُ الْاَوْلیاء، ج۷، ص ۲۹۵، التّیسیر بشرحِ الْجامِعُ الصَّغِیر لِلْمُناوِی ج ۲ ص ۴۳۲ ) {۲} ’’جو شخص علم کی طلب کرتا ہے، تو وہ اس کے گُزَشتہ گناہوں کا کفّارہ ہو جا تا ہے۔‘‘ (تِرْمِذِی ج۴ ص۲۹۴ حدیث ۲۶۵۷ )
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حُصولِ دنیا کے لئے سفر۔ ۔ ۔
غور تو فرمائیے! لوگ آمدنی کی زیادَتی کیلئے اپنے شہر سے دوسرے شہر، اپنے ملک سے دوسرے ملک جا پڑتے ہیں اورماں باپ، بال بچّوں وغیرہ سے برسوں دور پڑے رہتے ہیں ۔ آہ! آج حُصولِ دنیا کی خاطِراکثر لوگ ہر طرح کی قربانیاں دے رہے ہیں مگر اس قَدَر عظیم الشان اَجر و ثواب کی بِشارتوں کے باوُجُود راہِ خدا عَزَّ وَجَلَّ میں چند روز کیلئے بھی مَدَنی قافِلے میں سفر کرنے کو تیّا ر نہیں ہوتے۔
ایک طرف صحابہ کا کردار دوسری طرف ہم غفلت شِعار
ذرا سوچئے تو سہی! صَحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے راہ خدا کے ہر سفر میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا خواہ وہ دشمنوں کے مقابلے میں قتال (یعنی جنگ) کا مُعامَلہ ہو یا عِلمِ دین سیکھنا سکھانا مقصود ہو۔ یہ اُنہیں کی قربانیوں کا صدقہ ہے جو آج دنیا میں ہر طرف دینِ اسلام کی بہاریں ہیں ، بہرحال ایک طرف تو صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان ہیں جن کی زندگیاں اللہ عَزَّوَجَلَّکے