سَلَّمَ قِبلے کو اس لئے پیٹھ فرمایا کرتے تھے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَجنہیں عِلم سکھارہے ہیں یا وعظ فرمارہے ہیں اُن کا رُخ قبلے کی طرف رہے ۔ ۱ ؎
خ حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا اکثر قِبلے کومُنہ کرکے بیٹھتے تھے۔ ۲ ؎
خقراٰنِ پاک نیز درسِ نظامی کے مُدرِّسین کوچاہئے کہ پڑھاتے وقت بہ نیّتِ اِتِّباعِ سنّت اپنی پیٹھ جانبِ قِبلہ رکھیں تاکہ مُمکِنہ صورت میں طَلَبہ کا رُ خ قِبلہ شریف کی طرف رَہ سکے اور طلبہ کو قِبلہ رُخ بیٹھنے کی سنّت، حکمت اور نیّت بھی بتائیں اور ثواب کے حقدار بنیں۔ جب پڑھا چکیں تو اب قِبلہ رُو بیٹھنے کی کوشِش فرمائیں ۔
خ دینی طَلَبہ اسی صورت میں قِبلہ رُو بیٹھیں کہ اُستاذ کی طرف بھی رُخ رہے ورنہ عِلم کی باتیں سمجھنے میں دُشواری ہوسکتی ہے ۔
خخطیب کیلئے خُطبہ دیتے وقت کعبے کو پیٹھ کرنا سنّت ہے اور مُستحَب یہ ہے کہ سامِعین کا رُخ خطیب کی طرف ہو۔
خباِلخُصُوص ،تِلاوت ،دِینی مُطالَعَہ ،فتاوٰی نَوِیسی ،تصنیف و تالیف ،دُعا و اَذکار اور دُرُود وسلام وغیرہ کے مواقِع پر اور باِلعُمُوم جب جب بیٹھیں یا کھڑے ہو ں اور کوئی
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
۱ ؎ : اَلْمَقاصِدُ الْحَسَنۃص۸۸ دارالکتاب العربی بیروت
۲ ؎ :الادب المفردص۲۹۱حدیث۱۱۳۷مدینۃ الاولیاء ملتان