خواہِش یہی ہوتی ہے کہ ہر چیز کا رُخ جانبِ قبلہ رہے ۔
قبلہ رو بیٹھنے والے کی حکایت
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنا چِہرہ بھی مُمکِنہ صُورت میں قِبلہ رُخ رکھنے کی عادَت بنانی چاہئے کہ اِس کی بَرَکتیں بے شُمار ہیں چُنانچِہ حضرتِ سیِّدُنا امام بُرہانُ الدّین ابراہیم زَرنوجی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنقل فرماتے ہیں :دو طَلَبہ علمِ دین حاصِل کرنے کیلئے پردیس گئے، دونوں ہم سبق رہے ،جب چند سالوں کے بعد وطن لوٹے تو ان میں ایک فَقِیہ (یعنی زبردست عالم ومُفتی ) بن چکے تھے جبکہ دوسرا عِلم و کمال سے خالی ہی رہا تھا ۔اُس شہر کے عُلَمائے کرامرَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام نے اِس اَمر پر خوب غَور و خَوض کیا، دونوں کے حُصولِ علم کے طریقۂ کار ،اندازِ تکرار اوراُٹھنے بیٹھنے کے اطوار وغیرہ کے بارے میں تحقیق کی تو ایک بات نُمایاں طور پر سامنے آئی کہ جو فَقِیہ بن کرپلٹے تھے اُن کا معمول یہ تھا کہ وہ سبق یاد کرتے وَقْت قِبلہ رُو بیٹھا کرتے تھے جبکہ دوسرا جو کہ کَورے کاکَورا پلٹا تھا وہ قبلے کی طرف پیٹھ کرکے بیٹھنے کا عادی تھا ۔چُنانچِہ تمام عُلَماء و فُقَہاء رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰی اِس بات پر مُتَّفق ہوئے کہ یہ خوش نصیب اِستِقبالِ قِبلے (یعنی قبلے کی طرف رُخ کرنے ) کے اِہتِمام کی بَرَکت سے فَقِیہ بنے کیوں کہ بیٹھتے وقت کعبۃُ اللہ شریفکی سَمْت مُنہ رکھنا سنّت ہے ۔ (تَعلِیمُ الْمُتعلّم ص۶۸)