اور یہ ہر سمجھ دار جانتاہے کہ’’انصار‘‘ کے لُغوی معنی ’’مددگار‘‘ ہیں ۔
؎ اللہ کرے دل میں اُتر جائے مِری بات
اہل اللہ زندہ ہیں
اب شاید شیطان دل میں یہ’’ وسوسہ‘‘ ڈالے کہ زندوں سے مدد مانگنا تو دُرُست ہے مگر بعدِ وفات مد د نہیں مانگنی چاہیے ۔ آیتِ ذَیل اوراس کے بعد والے مضمون پر غور فرمالیں گے تو اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ اِس وَسوَسے کی جڑ بھی کٹ جائے گی ۔ چُنانچِہ پارہ 2سُوْرَۃُ الْبَقْرَہآیت154 میں ارشاد ہوتاہے :
وَلَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ اَمْوٰتٌ ؕ بَلْ اَحْیَآءٌ وَّلٰکِنۡ لَّا تَشْعُرُوۡنَ﴿۱۵۴﴾ترجَمۂ کنزالایمان: اورجوخدا (عزوجل) کی راہ میں مارے جائیں انہیں مرد ہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں خبر نہیں۔
انبیاء حیات ہیں
جب شُہَداء کی زندگی کا یہ حال ہے تو اَنبیاءعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ والسَّلَامجوکہ شہیدوں سے مرتبہ وشان میں باِلْاِتِّفاق اعلیٰ اور برترہیں ان کے حیات(یعنی زندہ) ہونے میں کیوں کرشُبہ کیا جاسکتاہے ۔ حضرتِ سیِّدُناامام بیہقیعَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی نے حیاتِ اَنبیا ء کے بارے میں ایک رِسالہ لکھا ہے اور ’’دلائلُ النُّبَّوۃ ‘‘ میں فرماتے ہیں کہ اَنبیاءعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ والسَّلَامشُہَداء کی طرح اپنے ربّ عَزَّوَجَلَّ کے پاس زِندہ ہیں ۔ (اَلْحاوی لِلفتاوی لِلسُّیوطی ج۲ ص۲۶۳،دَلَائِلُ النُّبُوَّۃِ لِلْبَیْہَقِی ج۲ ص ۳۸۸ دارالکتب العلمیۃ بیروت)