حکایت مذکورہ میں صرف ذکر نگہبانی ہے یہ بیان نہیں کہ وہ حفاظت بطور خدمت تھی نہ حفاظت معنی خدمتگاری میں متعین ، باپ اپنے بچوں یا استاد اپنے شاگروں کو تعلیم شناوری کے لیے کہ سنت ہے اگر دریا میں بھیجے اورخود کنارے بیٹھا ان کے لباس ونعال کی حفاظت کرے کوئی عاقل اسے خدمتگار نہ کہے گابلکہ رحمت وشفقت ونوازش پرورش ۔ حکایت میں یہ صورت ہونا کس نے محال کیا
فان واقعۃ عین یتطرق الیھاکل احتمال کما نص علیہ العلماء فی غیر مامقال
(کیونکہ معین واقعہ میں ہر احتمال راہ پاتاہے جیسا کہ علماء نے اس پر نص فرمائی ہے ۔ بغیر کسی قیل وقال کے ۔ ت)
جواب سوم
یہ دونوں جواب اہل ظاہر کے مدارک پر تھے ورنہ لسان حقائق کے طور پر معاملہ بالکل معکوس ہے ۔ وہم کرنے والا اصطلاح قوم سے ناواقفی کے باعث کمال عظمت کو معاذ اللہ موجب اہانت گمان کرتاہے اوراہل ظاہر پر انکار کلمات اہل اللہ میں اکثر بلا اسی دروازے سے آتی ہے ان کی اصطلاح کو اپنے مفہوم پر حمل کرتے اور خطا میں گرتے ہیں اورنہیں جانتے کہ ؎
ہندیاں رااصطلاح ہند مدح
سندیاں رااصطلاح سند مدح
درحق اومدح درحق توذم
درحق او شہد ودرحق توسم
درحق اودرد ودرحق توخار
درحق اونورودرحق تونار
توچہ دانی زیاں مرغاں را
کہ نہ دیدی گہِ سلیماں را
(ہندیوں کے ہند کی اصطلاح مدح ہے سندھیوں کے لیے سندھ کی اصطلاح مدح ہے اس کے حق میں مدح اورتیرے حق میں مذمت ، اس کے حق میں شہد اور تیرے حق میں زہر اس کے حق میں گلاب کا پھول اور تیرے حق میں کانٹا۔ اس کے حق میں نور اورتیرے حق میں نار ، تو کیا جانے پرندوں کے نقصان کو ، کہ تو نے سلیمان کے زمانے کو نہیں دیکھا۔(ت)
محمد شاہ بادشاہ دہلی کے حضور مجمع علماء تھا بعض کلمات منسوبہ باولیاء پر رائے زنی ہورہی تھی ، ہر ایک اپنی سی کہتا اور اعتراض کرتا ایک صاحب کہ اس جماعت میں سب سے اعلم تھے خاموش تھے ، بادشاہ نے عرض کی : آپ کچھ نہیں فرماتے ، فرمایا: یہ سب صاحب میرے ایک سوال کا جواب دیں تو میں کچھ کہوں ۔ سب ان عالم کی طرف متوجہ ہوئے ، انہوں نے فرمایا : آپ حضرات بولی کتے کی سمجھتے ہیں؟ سب نے کہا : نہ کہا بلی کی ؟کہا: نہ ۔کہا: سبحان اللہ تم مقرہو کہ ارذل خلق اللہ کی بولی تم نہیں سمجھتے اولیاء کہ افضل خلق ہیں ان کا کلام کیونکر سمجھ لو گے ۔
امام عبدالوہاب شعرانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
علمائے مصر جمع ہوکر ایک مجذوب کی زیارت کو گئے انہوں نے انہیں دیکھتے ہی فرمایا: مرحبا بعبید عبدی۔ مرحبا میرے بندے کے بندے کو۔
سب پریشان ہوکر لوٹ آئے ، ایک صاحب جامع ظاہر وباطن سے ملے اور شکایت کی ، انہوں نے فرمایا : ٹھیک تو ہے تم سمجھتے نہیں ، تم خواہش نفس کے بندے ہو رہے ہو اورانہوں نے خواہش نفس کو اپنا بندہ کرلیا ہے تو انکے بندے کے بندے ہوئے ۔
اب سنئے اصطلاح قوم میں ''نعلین''''کونین''کو کہتے ہیں ، اللہ تعالٰی عزوجل نے اپنے بندے موسٰی علیہ السلام سے فرمایا:
فاخلع نعلیک انک بالواد المقدس طوی۲۔
اپنے دونوں جوتے اتار ڈالو کہ تم پاکیزہ جنگل طوٰی میں ہو۔
(۲القرآن الکریم ۲۰ /۱۲)
مفسر علام نظام الدین حسن بن محمد قمی غرائب القرآن ورغائب الفرقان معروف بتفسیر نیشاپوری میں اس آیہ کریمہ کی تاویل یعنی بطور اہل اشارات و حقائق میں فرماتے ہیں :
اترک الالتفات الی الکونین انک واصل الی جناب القدس ۱۔
یعنی نعلین سے ''دونوں جہان ''مراد ہیں انہیں اتار ڈالو یعنی ان کی طر ف التفات نہ کرو کہ تم بارگاہ قدس میں پہنچ گئے ۔
(۱غرائب القرآن تحت آیۃ ۲۰ /۱۲ مصطفی البابی مصر۱۶ /۱۱۹)
اقول: نعل قطع راہ میں معین ہوتی ہے اورمقصد اولیاء وصول بحضرت کبریا ہے اوردنیا آخرت دونوں اس راہ کی قطع میں معین ۔ دنیا یوں کہ اس میں اعمال سبب وصول جنت ہیں ، اور آخرت یوں کہ وہیں وعدہ دیدار ہے معہذا طالبانِ مولٰی لذات کونین کو زیر قدم رکھتے ہیں ، جو زیر قدم ہو اسے نعل کہنا مناسب ہے ۔
حدیث میں ہے :
الدنیا حرام علی اھل الاٰخرۃ والاٰخرۃ حرام علی اھل الدنیا ، والدنیا والاٰخرۃ حرام علی اھل اللہ ۔ رواہ الدیلمی ۲عن ابن عباس رضی ا للہ تعالٰی عنہما۔
یعنی دنیا حرام ہے آخرت والوں پر اور آخرت حرام ہے دنیا والوں پر ، اوردنیا وآخرت دونوں حرام ہیں اللہ والوں پر ۔ (اسے دیلمی نے ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا۔ ت)
(۲الفردوس بما ثور الخطاب حدیث ۳۱۱۰ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۲ /۲۳۰)
نیز نعل ''زوجہ ''کو کہتے ہیں
کما فی القاموس وغیرہ ۳
(جیسا کہ قاموس وغیر ہ میں ہے ۔ ت)
(۳ القاموس المحیط باب اللام فصل النون مصطفی البابی مصر ۴ /۵۹)
اور دنیا وآخرت دونوں سوتیں ہیں۔ ؎
فان من جودک الدنیا وضرتھا
ومن علومک علم اللوح والقلم۴
(۴قصیدہ بردہ شریف مطبع انصار دہلی ص۷۹)
کیونکہ دنیااورآخرت آپ کی بخششوں میں سے ہے اورلوح وقلم آپ کے علموں میں سے ہیں ۔ ت)
اسی طرف اشارہ ہے ۔ حدیث نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں ہے فرماتے ہیں :
من احب دنیاہ اضرباخرتہ ومن احب اخرتہ اضربدنیاہ فأثروامایبقی علی مایفنی رواہ احمد والحاکم عن ابی موسٰی الاشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ بسند صحیح ۱۔
جو اپنی دنیا کو پیار کرے گا اس کی آخر ت کو نقصان ہوگا اور جو اپنی آخرت کو پیارا رکھے اس کی دنیا کو ضرر ہوگا تو باقی کو فانی پر ترجیح دو۔ (اس کو امام احمد وحاکم نے ابو موسٰی اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بسندصحیح روایت کیا ۔ت)
(۱مسند احمد بن حنبل حدیث ابو موسٰی اشعری رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۴ /۴۱۲)
اورمداردنیا بنیہ بشری پر ہے اورمدار مثوبات آخرت عقل تکلیفی پراور وجد وسماع کے غلبے میں ان کے زوال کا اندیشہ ، خصوصاًجب قوت ضعف ہو اوربرکت صاحب مجلس سے تجلی اشد واقوٰی واقع ہو تو بدن فنایا عقل زائل ہوجانا کچھ بعید نہیں ۔
حضور پرنور غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نماز پڑھا رہے تھے جب سجدے میں گئے مقتدیوں میں سے ایک مرید کا جسم گھلنا شروع ہوا یہاں تک کہ گوشت ، پوست ، استخواں کسی کا نام ونشان نہ رہا صرف ایک قطرہ پانی رہ گیا ۔ حضور نے بعد سلام روئی کے پھوئے میں اٹھا کر دفن فرمایا اورفرمایا : سبحان اللہ !ایک تجلی میں اپنی اصل کی طرف پلٹ گیا۔
لہذا سیدنا خضر علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی قوت ومددسے انکی دنیا وآخرت کی یعنی بنیہ بشری وعقل تکلیفی کی حفاظت فرماتے تھے ، کہئے یہ کمال عظمت ہے یا معاذ اللہ اہانت ! الخ، مختصراً ۔