یہ کہ حضرت میر عبدالواحد بلگرامی قدس سرہ السامی نے اپنی کتاب''سبع سنابل''سنبلہ دوم ص۶۱ میں حکایت لکھی ہے کہ :
مردے بودازسلطان المشائخ منکر وازراہ وروش ایشاں متنفر واعتقاد بدرویتے دیگر داشت روزے ازاں درویش پر سید کہ مرا آرزوئے ملاقات خضر پیغامبر علیہ السلام بسیار است اگر بعنایت شما ملاقات میسر شودغایت بندہ نوازی وسرفرازی باشد آں درویش گفت روزے کہ درخا نقاہ سلطان المشائخ سرودوسماع درمیدہند آں روز خضر علیہ السلام آنجاحاضر می شود نگاہبانی نعلین وکفشہائے مردم می کند آں مردازانکار خودپشیماں گشت درروز سماع درخانقاہ ایشاں آمد وباخضر علیہ السلام ملاقات کردازوے فائد ہا گرفت۲۔
ایک شخص حضرت سلطان المشائخ کے احوال کا منکر آپ کی راہ وروش سے متنفر اورایک دوسرے درویش کا معتقد تھا، ایک روز اس درویش سے کہنے لگا کہ میری یہ آرزو ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات کروں اگر سرکار کے کرم سے ملاقات ہوجائے توانتہائی بندہ نوازی اورسرفرازی ہو۔ درویش نے جواب دیا کہ جس روز حضرت سلطان المشائخ کے یہاں مجلس سرود وسماع ہوتی ہے اس روز حضرت خضر علیہ السلام تشریف لاتے ہیں او رلوگوں کے جوتوں کی نگہبانی فرماتے ہیں۔ وہ شخص اب اپنے انکار پر پریشان ہوا اورقوالی والے دن آپ کی خانقاہ میں حاضرہوگیا، حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات کی اوران سے خوب فیض حاصل کیا۔ (ت)
(۲سبع سنابل سنبلہ دوئم دربیان پیری مریدی مکتبہ قادریہ رضویہ اندرون لوہاری دروازہ لاہور ص۶۱)
توحاصل اعتراض یہ کہ اس حکایت میں حضرت خضر کی (جو ایک قول پر نبی تک ہیں) توہین کی کہ انہیں حضرت سلطان المشائخ کا خدمت گار اوروہ بھی ایسا کہ ان کی مجلس سماع کے حاضرین کی نعلین (جوتیوں )کا نگہبان بتایا۔ اس اعتراض پر بحکم شریعت وبپاس حمایت جانب محبوبان خدا جو جوابات حضور سیدی اعلٰی حضرت امام اہلسنت علامہ الحاج مولانا الشاہ مفتی عبدالمصطفٰی احمد رضا خاں صاحب فاضل بریلوی قدس سرہ نے تحریر فرمائے ملاحظہ ہوں۔
جواب اول
اولیائے کرام قدست اسرارہم کو اس میں اختلاف ہے کہ یہ حضرت خضر جو اکثر اکابر سے ملاقی ہوتے ہیں آیا وہ خضر موسٰی علیہما الصلوۃ والسلام ہیں جن کی نبوت میں اختلاف ہے اورصحابیت میں شبہہ نہیں یا ہر دورے میں ایک ولی بنام خضر ہوتاہے یعنی مناصب ولایت سے ایک عہدے کا نام''خضر ''ہے کہ جو اس عہدے پر قائم ہوگا اسی نام سے پکاراجائے گا ، جیسے غوث کا نام عبداللہ وعبدالجامع اوراس کے دونوں ویزر دست چپ وراست کا نام عبدالملک وعبدالرب جن کو امامین کہتے ہیں اوراوتاد اربعہ کا نام عبدالرحیم وعبدالکریم وعبدالرشید وعبدالجلیل ، یونہی جو عہدہ نقابت پر ہو اسے ''خضر ''کہا جائے گااس کا اپنا نام کچھ ہو۔ ایک جماعت عظیم صوفیہ کرام اسی قول پر ہے اوربہت حکایات سے اس کا پتہ ملتاہے ۔ حافظ الحدیث امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی قول کی تائید کی ، اصابہ فی تمییز الصحابہ''میں فرماتے ہیں :
قول بعضھم ان لکل زمان خضرا وانہ نقیب الاولیاء وکلما مات نقیب اقیم نقیب بعدہ مکانہ ویسمّی الخضر وھذا قول تداولتہ جماعۃ من الصوفیۃ من غیر نکیر بینھم ولا یقطع مع ھذا بان الذی ینقل عنہ انہ الخضر ھو صاحب موسٰی علیھما الصلوٰۃ والسلام بل ھو خضر ذٰلک الزمان ویؤیدہ اختلافھم فی صفتہ فمنھم من یراہ شیخا اوکھلااو شابا وھو محمول علی تغایر المرئی وزمانہ ۱واللہ تعالٰی اعلم ۔
بعض اولیاء کا قول کہ ہرزمانے کے لیے ایک خضر ہوتاہے اوروہ نقیب اولیاء ہوتاہے ، جب ایک نقیب کا وصال ہوجائے تو اس کی جگہ کوئی اورنقیب مقررکردیا جاتاہے جس کو خضر کہا جاتاہے ۔ میں نےیہ قول صوفیاء کی ایک جماعت سے حاصل کیا۔ ا س کے بارے میں ان سے کوئی اختلاف نہیں اس قول کی موجودگی میں اس پر یقین نہیں کیا جاسکتا کہ اعتراض میں منقول خضر سے مراد وہی خضر ہیں جو حضرت موسٰی علیہ السلام کے ساتھی ہیں بلکہ اس سے مراد اس زمانے کا خضر ہے اورصفت خضر کے بارے میں دیکھنے والوں کا اختلاف بھی اس قول کا مؤید ہے ۔ چنانچہ کسی نے انکو بوڑھا ، کسی نے ادھیڑ عمر والا اورکسی نے جوان دیکھا یہ دکھائی دینے والے اوراس کے زمانے کے تغایر پر محمول ہے ۔ واللہ تعالٰی اعلم(ت)
(۱ الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ ذکر خضر صاحب موسٰی علیہ السلام دارصادر بیروت ۱ /۴۳۳)
اس ولی مسمّٰی بخضر کا جمیع اولیاء درکنار اپنے دورے کے اولیاء سے بھی افضل ہونا ضرور نہیں بلکہ افضل نہ ہونا ضرور ہے ۔ غوث بالیقین اس سے افضل ہوتا ہے کہ وہ اپنے دورے میں سلطان کل اولیاء ہے ۔ یونہی امامین ، یونہی افراد، یونہی اوتاد، یونہی بُدلا ، یونہی ابدال کہ یہ سب یکے بعد دیگرے باقی اولیائے دورہ سے افضل ہوتے ہیں ۔ امام عبدالوہاب شعرانی قدس سرہ الربانی کتاب الیواقیت والجواہر فی بیان عقائد الاکابر میں فرماتے ہیں :
ان اکبر الاولیاء بعد الصحابۃ رضی ا للہ تعالٰی عنہم القطب ثم الافراد علی خلاف فی ذٰلک ثم الامامان ثم الاوتاد ثم الابدال ۲اھ
صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے بعد سب سے بڑا ولی قطب ہوتاہے ، پھر افراد، اس میں اختلاف ہے ، پھر امامان ، پھر اوتاد ، پھر ابدال اھ۔
(۲ الیواقیت والجواہر المبحث الخامس والاربعون داراحیاء التراث العربی بیروت ۲ /۴۴۶)
اقول: والمراد بالابدال البدلا ء السبعۃ لما ذکر بعدہ ان الابدال السبعۃ لایزیدون ولاینقصون وھٰؤلاء ھم البدلاء اما الابدال فاربعون بل سبعون کما فی الاحادیث۔
میں کہتاہوں ابدال سے مراد سا ت بدلا ء ہیں اس دلیل کی وجہ سے جو اس کے بعد مذکورہے کہ بے شک ابدال سات ہیں نہ زیادہ ہوتے ہیں نہ کم اوریہی بُدلا ء ہیں۔ رہے ابدال تو وہ چالیس ۴۰ بلکہ ستر ۷۰ہیں جیسا کہ احادیث میں ہے ۔ (ت)
توکیا ضرورہے کہ عہد کرامت مہد حضرت سلطان الاولیاء محبوب الہٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا خضر حضور سے افضل ہو بلکہ ممکن ہے کہ حضورکا خادم ہو۔ حضور کا لقب ساقِ عرش پر''قطب الدین''لکھا ہے اوریہ قطب اورغوث شیئ واحد ہے نہ وہ قطب کہ ہر شہر ہر قریہ ہر لشکر کا جدا ہوتا ہے ۔ غالباً اس لئے حضور نام سلطان المشائخ ہوا کہ قطب سلطان اولیائے دورہ ہے ، واللہ تعالٰی اعلم۔ اورخادم کہ اپنے مخدوم کے مہمانوں کی خدمت کرے وہ درحقیقت مخدوم ہی کی خدمت ہے اوراس سے خادم کی کوئی اہانت نہیں ہوتی کہ ممکن ہے کہ اس دورے کا خضر خود حضرت سلطانی کا مرید ہو اورمرید توکوچہ شیخ(عہ) کے کتوں کی بھی تعظیم کرتاہے اوراس کی اہانت نہیں بلکہ اورترقی عزت وبلند ی مرتبت ہے ۔
من تواضع للہ رفعہ اللہ ۔ اللھم ارزقنا حسن الادب من اولیاء ک بجاھھم عندک اٰمین وانت محب السائلین ۔
جو اللہ تعالٰی کے لیے عاجزی کرے اللہ تعالٰی اس کو رفعت عطافرماتا ہے ۔ اے اللہ ہم کو اپنے ولیوں سے حسن ادب عطافرمااس مرتبے کے صدقے جو ان کا تیرے ہاں ہے ۔ ہماری دعا قبول فرما اورتومانگنے والوں سے محبت فرمانیوالا ہے ۔ (ت)
عہ: خودحضور سلطان المشائخ کی اس بارے میں حکایت ہے ۔ (تاج العلماء محمد میاں علیہ الرحمہ)