Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر ۳۰(فضائل وخصائص )
5 - 212
مسئلہ ۶: ازجے پورمکان نواب واجدعلی خان صاحب مرسلہ جناب مولوی محمدرکن الدین صاحب الوری مورخہ۱۴صفر۱۳۳۶ھ

تاج العلماء مایہ ناز ماسنیان مخزن علوم حضرت مولانا الحاج مولوی احمد رضا خان صاحب مداللہ ظلالکم، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔ ایک مدت سے گوذریعہ مراسلت دریافت خیریت مزاج وہاج سے قاصر ہوں مگر الحمدللہ کہ مردمان آیندگان کی زبانی خیریت معلوم ہونے سے مسرت ہوتی رہتی ہے ، ایک عرصہ کے بعد حضرت خواجہ غریب نوا زقد س سرہ کے دربار دُربار میں حاضری کااتفاق ہوا ، واپسی میں جے پور بھی نواب واجد علی خاں صاحب کے طلب کرنے پر قیام کرنا پڑا۔ ایک مولوی وہابی سے گفتگو ہوئی اثنائے گفتگو میں مولوی عبدالسمیع صاحب مرحوم ومغفور کی اس عبارت پر کہ جو انہوں نے حدیث نبوی :
من احدث فی امرنا ھذا مالیس منہ فھو رد۱؂۔
 (جس نے ہمارے دین میں کوئی نئی بات ایجاد کی جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے ۔ت) کی نسبت لکھا ہے کہ شارحین نے مالیس منہ کی شرح میں یہ لکھا ہے :
  فیہ اشارۃ الی ان احداث مالاینازع الکتاب والسنۃ لیس بمذموم۲؂
اس میں اشارہ ہے کہ جو نئی بات کتاب وسنت کے مخالف نہ ہو اس کو ایجاد کرنا قابل مذمت نہیں ہے ۔(ت)
(۱؂صحیح مسلم    کتاب الاقضیۃ    باب نقض الاحکام الباطلہ الخ   قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲ /۷۷)

 (۲؂ انوار ساطعہ دربیان مولود وفاتحہ    بدعت کی اصل تحقیق       مکتبہ حامدیہ گنج بخش روڈ لاہور    ص۷۳)
یہ اعتراض کیا کہ یہ الفاظ کسی شرح میں نہیں ہیں اس وقت صحیحین کو جودیکھا گیاتو نہ مولوی احمد علی سہاری کی شرح میں اورنہ نووی میں اس کا پتہ لگا۔ لہذا گزارش ہے کہ جناب اس عبارت کوتحریر فرمادیں کہ کون سی شرح میں ہے ؟کیونکہ مولوی عبدالسمیع صاحب مرحوم نے بھی کسی شرح کا حوالہ نہیں دیا، 

دوسرے شاہ احمد سعید مجددی رحمۃ اللہ علیہ نے تحقیق حق المسائل کے اندر ثبوت سوم وچہلم میں بحوالہ حاشیہ یہ عبارت نقل فرمائی ہے  :
  ان المسلمین یجتمعون فی کل عصر وزمان یقرأون القراٰن ویھدون ثوابہ لموتاھم وعلی ھذا اھل الصلاح والدیانۃ من کل مذہب من المالکیۃ والشافعیۃ وغیرہم ولا ینکرذٰلک منکر فکان اجماعاً عند اہل السنۃ والجماعۃ خلافا للمعتزلۃ۔
ہر دور اور ہر زمانے کے لوگ جمع ہوکر قرآن مجید پڑھتے ہیں اوراس کا ثواب اپنے مردوں کو بخش دیتے ہیں ، مالکیہ وشافعیہ وغیرہ ہر مذہب کے صالحین اوردیانتداروں کا یہی مؤقف ہے جس کا کوئی انکار نہیں کرتا ، تو اہلسنت وجماعت کے نزدیک اس پر اجماع ہے بخلاف معتزلہ کے۔ (ت)

شاہ صاحب موصوف نے بھی کسی شرح کا حوالہ نہیں دیا اس کے بارے میں بھی عرض ہے کہ جناب تحریر فرمادیں کہ یہ عبارت کون سی شرح میں موجود ہے ۔ وہابی صاحب کا یہ اعتراض ہے کہ سنی یونہی جھوٹے حوالے دیتے ہیں فقیرکی بھی نظرسے نہیں گزرا۔ جو اب باصواب الور روانہ فرمایا جائے ، بفضل تعالٰی  یہاں سے تو اس وہابی کو نکلوا دیا ہے ، مگرہم کو بھی تو ان عبارتوں کی اصلیت معلوم ہونا چاہیے ۔

زیادہ نیاز         مسکین محمد رکن الدین نقشبندی قادری الوری
الجواب 

مولٰنا المکرم ذی المجد والکرم اکرمکم الاکرم تعالٰی  وتکرم ، وعلیکم والسلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔
پہلی عبارت مرقاۃ ۱؂ شرح مشکوۃ علی قاری طبع مصر جلد اول ص۱۷۷ سطر اخیر شروع باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ میں ہے ،
 (۱؂ مرقاۃ المفاتیح     باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ     حدیث۱۴۰   المکتبۃ الحبیبیہ کوئٹہ   ۱/ ۳۶۶)
اوردوسری بنایہ ۲؂شرح ہدایہ للامام محمود العینی طبع لکھنوء جزء ثانی از جلد اول اوائل ص۱۶۱۲ آغاز باب الحج عن الغیر میں ۔
(۲؂ البنایۃ فی شرح الہدایۃ     کتاب الحج     باب الحج عن الغیر المکتبۃ الامدادیہ مکۃ المکرمۃ    المجلد الاول الجزء الثانی  ص۱۶۱۲)
جناب مولانا ! اہلسنت آئینہ ہیں ، وہابی کو آئینے میں اپنا ہی منہ دکھادیا ، یہ شیوہ وہابیہ کا ہے کتابیں دل سے گھڑ لیں علماء دل سے تراش لئے ، پھر عبارت گھڑنی کیا مشکل ہے ۔والسلام۔
مسئلہ ۷: از شہر محلہ کٹرہ چاند خاں مسئولہ منظور حسن صاحب قادری رضوی ۱۲رمضان ۱۳۳۸ھ 

اس وقت حضور کا دیوان پیش نظر ہے اس میں اس شعر کا مطلب سمجھ نہ آیا : ؎

فرماتے ہیں یہ دونوں ہیں سردار دو جہاں 	

اے مرتضٰی  عتیق وعمر کو خبرنہ ہو۱؂
 (۱؂حدائق بخشش    مکتبہ رضویہ آرام باغ کراچی    ص۵۹)
الجواب 

یہ شعر ایک حدیث کا ترجمہ ہے :
ابوبکر وعمر خیر الاولین وخیر الاٰخرین وخیر اہل السمٰوٰت وخیر اھل الارضین الا الانبیاء والمرسلین لاتخبرھما یا علی ۲؂۔
ابوبکر وعمر سب اگلوں پچھلوں سے افضل ہیں اورتمام آسمان والوں اورسب زمین والوں سے بہتر ہیں سواانبیاء ومرسلین کے ، اے علی!تم ان دونوں کو اس کی خبر نہ دینا۔
 (۲؂کنزالعمال   حدیث ۳۲۶۴۵و ۳۲۶۵۲   مؤسسۃ الرسالہ بیروت       ۱۱ /۶۱۔۵۶۰)

(تاریخ بغداد        ترجمہ عبداللہ بن ہارون  ۵۳۳۱     دارالکتاب العربی بیروت       ۱۰ /۱۹۲)
علامہ مناوی نے تیسیر۳؂میں اس کے یہ معنی بتائے ہیں کہ ارشاد ہوتاہے اے علی (کرم اللہ تعالٰی  وجہہ الکریم)تم ان سے نہ کہنا بلکہ ہم خود فرمائیں گے تاکہ ان کی مسرت زیادہ ہو۔ واللہ تعالٰی  اعلم
 (۳؂ التیسیرشرح الجامع الصغیر تحت الحدیث ابو بکر وعمر سیداکہول اہل الجنۃ مکتبۃ الامام الشافعی ریاض ۱ /۱۸)
مسئلہ ۸: از کانپور فیلخانہ قدیم مکان مولوی سید محمد اشرف صاحب وکیل 

مسئولہ مولوی سید محمد آصف صاحب     ۴رمضان ۱۳۳۹ھ 

بسم اللہ الرحمن الرحیم ط نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم ط

یا حبیب محبوب اللہ روحی فداک قبلہ کونین وکعبہ دارین محی الملّۃ والدین دامت فیوضہم بعد تسلیمات فدویانہ وتمنا ء حصول سعادت آستانہ بوسی اینکہ بفضلہ تعالٰی
فدوی بخیریت ہے ملازمان سامی کی صحتوری مدام بارگاہ احدیت مطلوب ۔ حدائق بخشش کے صفحہ ۸۰ مصرع :
عشاق روضہ سجدہ میں سوئے حرم جھکے۴؂
کی شرح مطلب میں تحریرہے کہ : ''کعبہ بھی انہیں کے نور سے بنا، انہیں کے جلوے نے کعبہ کو کعبہ بنادیا، تو حقیقت کعبہ وہ جلوہ محمدیہ ہے جو اس میں تجلی فرما ہے ، وہی روح قبلہ اوراسی کی طرف حقیقۃً سجدہ ہے ، اتنا یاد رہے کہ حقیقت محمدیہ ہماری شریعت میں مسجودالیہا ہے ۔ ''
 (۴؂حدائق بخشش     حاضری درگاہ ابدی پناہ وصل دوم رنگ عشقی مکتبہ رضویہ کراچی     حصہ اول    ص۱۰۰)
اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ حقیقت کعبہ جلوہ محمدیہ ہے جس کی طرف حقیقۃً سجدہ ہے ۔ آخر عبارت کے الفاظ کہ ''حقیقت محمدیہ ہماری شریعت میں مسجود الیہا ہے ۔''ان الفاظ سے اس ناقص الایمان والعلم والعقل کی ناقص فہم میں یہ آتا ہے کہ جلوہ محمدیہ ہی کو حقیقت محمدیہ کہا گیا ہے اور جب حقیقت کعبہ جلوہ محمدیہ بتائی گئی اوراسی کی طرف حقیقت سجدہ کہا گیا اورحقیقت محمدیہ کو مسجود الیہا کہا تو حقیقت کعبہ کا حقیقت محمدیہ ہونا لازم آتاہے۔ والسلام مع الکرام۔
الجواب 

بسم اللہ الرحمن الرحیم ط نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم ط

بملاحظہ مولانا المکرم ذوالمجد والکرم مولٰی نا مولوی سید محمد آصف صاحب دامت فضائلہم ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔ اگر آپ آفتاب اوردھوپ کو دیکھیں تو فرق حقیقت وتجلی کی ایک ناقص مثال پیش نظرہو۔ آفتاب گویا حقیقت شمس ہے اوردھوپ اس کا جلوہ۔ حقیقت صفات کثیرہ رکھتی ہے اور اپنے مجالی میں متفرق صفات سے تجلی کرتی ہے ان صفات کے لحاظ سے جو آثار ان مجالی کے ہیں وہ حقیقۃًحقیقت کے اور معاملات ان مجالی سے بحیثیت مجالی ہیں وہ حقیقۃً حقیقت سے جیسا صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی  عنہم کی نسبت فرمایا :
من احبھم فبحبی احبھم ومن ابغضہم فببغضی ابغضھم ۱؂۔
جس نے میرے صحابہ سے محبت کی تو اس نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اورجس نے ان سے بغض رکھا اس نے میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا۔(ت)
 (۱؂جامع الترمذی    ابواب المناقب سبّ اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم     امین کمپنی دہلی ۲ /۲۲۶)

 مسند احمد بن حبنل    حدیث عبداللہ بن مغفل     المکتب الاسلامی بیروت    ۵ /۵۴ ،  ۵۵ ،  ۵۷)
حقیقت کعبہ مثل حقائق جملہ اکوان حقیقت محمدیہ علی صاحبہا افضل الصلوٰۃ والتحیۃ کی ایک تجلی ہے کعبہ کی حقیقت وہ جلوہ ہے مگر وہ جلوہ عین حقیقت محمدیہ نہیں ۔ صلی اللہ تعالٰی  علیہ وسلم ، بلکہ اس کے غیر متناہی ظلال سے ایک ظل ، جیسا کہ اسی قصیدہ میں ہے ؎

کعبہ بھی ہے انہیں کی تجلی کا ایک ظل 

روشن انہیں کے عکس سے پتلی حجر کی ہے۱؂
 (۱؂حدائق بخشش     حاضری بارگاہ بہیں جاہ وصل دوم رنگ علمی     حصہ اول    ص۹۲)
حقیقتِ کریمہ نے اپنی صفت مسجود یت الیہا سے اس ظل میں تجلی فرما ئی ہے لہذا کعبہ جس کی حقیقت یہی ظل وتجلی ہے مسجود الیہا ہوا اورحقیقت وہ حقیقت علیہ مسجود الیہا ہے کہ اسی کی اس صفت کے ساتھ اس پر تجلی نے اسے مسجود الیہا کیا ۔ والسلام
Flag Counter