عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم انہ کرہ رفع الصوت عند قراءۃ القراٰن والجنازۃ والزحف والتذکیر فماظنک عندالغناء الذی یسمونہ وجدا ومحبۃ فانہ مکروہ لااصل لہ فی الدین۲؎۔
حضوراکرم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وآلہٖ وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے تلاوت قرآن، نمازجنازہ، جنگ اوروعظ کے دوران بلندآواز کوناپسند فرمایا۔ پھرتمہارا کیاخیال ہے اس چیخ وپکار کے بارے میں جو اس راگ کے وقت ہو جس کو یہ لوگ وجد اور محبت کانام دیتے ہیں۔ بلاشبہہ یہ مکروہ ہے، دین میں اس کی کوئی اصل نہیں۔(ت)
(۲؎ ردالمحتار کتاب الحظروالاباحۃ فصل البیع داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۲۵۵)
یوہیں تالیاں بجانا بھی وجوہ مذکور پرناجائزوممنوع ہے۔ شامی میں زیرقول شارح:
کرہ کل لھو بقولہ علیہ الصلٰوۃ والسلام کل لھو المسلم حرام الا ثلٰثۃ ۱؎۔
ہرکھیل مکروہ ہے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس ارشاد کی وجہ سے کہ مسلمان کاہرکھیل سوائے تین کے حرام ہے۔(ت)
(۱؎ درمختار کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی البیع مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۲۴۸)
اطلاق (یعنی بلاقیدذکرکرنا) نفس فعل اور اس کی سماعت کو شامل ہے جیسے ناچنا، مذاق کرنا اور تالیاں بجانا۔ اس لئے کہ یہ سب مکروہ ہیں کیونکہ یہ عادات کفارہیں۔اھ مختصراً(ت)
(۲؎ ردالمحتار کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی البیع داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۲۵۳)
اقول: تصدیق اس کی کہ تالی بجانا افعال کفارسے ہے، خود قرآن عظیم میں موجود اﷲ عزوجل فرماتا ہے:
وماکان صلاتھم عندالبیت الامکاء وتصدیۃ۳؎۔
نہ تھی ان کی نمازکعبے کے پاس مگرسیٹی اور تالی۔
(۳؎ القرآن الکریم ۸/ ۳۵)
معالم میں ہے:
قال ابن عباس والحسن، المکاء الصفیر والتصدیۃ التصفیق قال ابن عباس کانت قریش تطوف بالبیت وھم عراۃ یصفرون ویصفقون۔۴؎
عبداﷲ ابن عباس اور حسن بصری نے فرمایا قرآن مجید میں جولفظ ''المکاء'' آیاہے اس کے معنی سیٹی بجانا ہے اور تصدیہ کے معنی ہیں تالی بجانا۔ ابن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ قریش کعبہ شریف کاننگے ہوکرطواف کرتے اور سیٹیاں اورتالیاں بجایاکرتے تھے(ت)
(۴؎ معالم التنزیل علی ہامش الخازن تحت وماکان صلاتہم مصطفی البابی حلبی مصر ۳/ ۳۰)
اور جو فعل حرام ہے اس میں شریک ہونا اس کاتماشادیکھنابھی حرام ہے۔
کماافادہ فی غیرما مسئلۃ وقدسمعت الاٰن ان الاستماع کالفعل۔
جیسا کہ بہت سے مسائل میں اس کاافادہ کیا اور ابھی آپ نے سنا(پڑھا) کہ سننا فعل کی طرح ہے۔(ت)
جوہرہ نیرہ پھردرمنتقی پھرردالمحتار میں ہے:
مایفعلہ متصوفۃ زماننا حرام لایجوز القصد والجلوس الیہ ومن قبلھم لم یفعل کذٰلک۱؎
ہمارے زمانے کے نمائشی صوفی جوکچھ کرتے ہیں وہ حرام ہے لہٰذا اس کا ارادہ کرنا اور ایسی مجلس میں بیٹھناجائزنہیں اور ان سے پہلے کبھی ایسانہ کیاگیا۔(ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب الحظروالاباحۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۲۲۲)
ہاں اگرمغلوبین صادقین بے تصنع وبے اختیار یادِ محبوب پروجد میں آئیں اور ان ماسوی اﷲ حتی کہ اپنی جان سے بے خبروں کو جام عشق کی پرجوش مستیاں والہ سرگشتہ بنائیں تو یہ دولت عظمٰی ونعمت کبرٰی ہے جسے بخشیں جسے عطافرمائیں، یہ حالت نہ زیرقلم نہ قسم عمل نہ اس پرانکار کا اصلاً محل اگرچہ اصحاب تمکین وجبال شامخین ہداۃ مرشدین وقدوہ فی الدین کہ پہاڑ ٹل جائیں اور جنبش میں نہ آئیں ارفع واعلٰی ہیں خاص وارثان حضرات عالیہ انبیاء علیہم افضل الصلوٰۃ والثناء ہیں ۔
قلت ودون ھٰؤلاء مرتبۃ الاوساط الصادقین السالکین مسلک الاقتداء بالعاشقین مع الاخلاص المبین کالفجر المبین یریدون القدوۃ لوجدان الطریقۃ لان التعود ربما جر الی الحقیقۃ کما اشار الیہ الامام حجۃ الاسلام فی احیاء العلوم علی ان من تشبہ بقوم فہو منھم۲؎ وھذا وعر وبرزخ صعب لایقدر علیہ الامن تخلی عن الھوی وقدرعلی نفسہ ان یمسک عنانھا عن الطغوی لیس بینہ وبین التصنع المذموم الاکما بین سواد العین وبیاضہ اوشفۃ المرء وفیہ من رتع حول الحمی اوشک ان یقع فیہ۱؎، نسأل اﷲ العفووالعافیۃ۔
میں کہتاہوں کہ مرتبۃ الاوساط یعنی اوسط درجہ کے لوگوں کا درجہ جو سچے ہیں ان سے کم ہے ظاہراخلاص کے ساتھ، جیسے فجرکا اجالا۔ وہ عشاق کی اقتداء کرتے ہیں ان کے مسلک پرچلتے ہیں حصول طریقہ کے لئے وہ پیشوائی کاارادہ رکھتے ہیں کیونکہ بعض اوقات عادت حقیقت کی طرف کھینچ لے جاتی ہے جیسا کہ حجۃ الاسلام امام غزالی نے احیاء العلوم میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے علاوہ ازیں جو کسی کی مشابہت اختیارکرے وہ انہی میں سے ہے، یہ مسلک مشکل اوربرزخ یعنی متوسط درجہ دشوار ہے اس کی قدرت وہی شخص رکھ سکتاہے جونفسانی خواہش سے مبراہو۔ اور اپنے نفس کے گھوڑے کولگام دے کر آگے بڑھنے سے روکنے اور بازرکھنے پرقادر ہو۔ پس اس کے اور تصنع مذموم کے درمیان اتنی ہی مسافت ہے جتنی آنکھ کی سیاہی اور سفیدی کے درمیان ہے یاجتنی آدمی کے ہونٹ اور زبان کے درمیان ہے، اور جو کوئی چراگاہ کے چاروں اطراف کے ساتھ چرے تو اس چراگاہ میں چلے جانے کا قوی امکان ہے۔ ہم اﷲ تعالٰی سے درگزر اور عافیت کاسوال کرتے ہیں۔(ت)
(۲؎ سنن ابی داؤد کتاب اللباس باب فی لبس الشہرۃ آفتاب عالم پریس لاہور ۲/ ۲۰۳)
(۱؎ صحیح البخاری کتاب البیوع باب الحلال بین والحرام بین قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۲۷۵)
نصاب الاحتساب وتاتارخانیہ وفتاوٰی خیریہ وردالمحتار وغیرہا میں ہے: لہ شرائط ان لایقوموا الامغلوبین ولایظھروا وجدا الاصادقین۲؎۔
اس کے لئے شرائط ہیں، ایک یہ کہ وہ نہ اٹھیں مگرمغلوب ہوکر اور وجد کااظہار نہ کریں سوائے سچاہونے کی حیثیت کے۔(ت)
(۲؎ ردالمحتار کتاب الحظروالاباحۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۲۲۲)
وجدکرنے والے کی وجدانی کیفیت گم سم ہوجانے کی حالت کے لئے شرط یہ ہے کہ وہ اس حد تک حاوی ہو کہ اگروجد والے کے چہرے پرتلوار کی ضرب(چوٹ) لگائی جائے تو تب بھی اسے درد کا احساس اور شعور نہ ہونے پائے۔(ت)
(۳؎ ردالمحتار شرح تنویرالابصار کتاب الحظروالاباحۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۲۲۲)