Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۴(کتاب الحظر والاباحۃ)
5 - 160
خیریہ میں ہے:
فی التتارخانیۃ مایدل علی جوازہ للمغلوب الذی حرکاتہ کحرکات المرتعش وبھذا افتی البلقینی و برھان الدین الابناسی وبمثلہ احباب بعض ائمۃ الحنفیۃ والمالکیۃ وکل ذٰلک اذا خلصت النیۃ وکانوا صادقین فی الوجد مغلوبین فی القیام والحرکۃ عند شدۃ الھیام ۱؎۔
فتاوٰی تتارخانیہ میں ہے کہ مغلوب الحال کے وجد کے جواز پر جوچیزدلالت کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کی حرکات رعشہ والے کی حرکات کی مانند ہوں۔(یعنی بے ساختہ اور بے اختیار ہوں) علامہ بلقینی اور علامہ برہان الدین ابناسی نے اس پرفتوٰی دیاہے اور بعض ائمہ حنفیہ اورمالکیہ نے بھی اسی کے مطابق جواب دیاہے۔ اور یہ سب کچھ اس وقت ہے جبکہ نیت خالص ہو اور وجدوالے وجد میں سچے ہوں اور اٹھنے بیٹھنے اور حرکت میں جنون عشق کی شدت سے مغلوب ہوں۔(ت)
 (۱؎ فتاوٰی خیریہ     کتاب الکراہۃ والاستحسان         دارالمعرفۃ بیروت     ۲/ ۱۸۲)
مجمع الانہر میں زیرقول مذکورملتقی الابحر ہے: فی التسھیل فی الوجد مراتب وبعضہ یسلب الاختیار فلاوجہ للانکار بلاتفصیل ۲؎۔
تسہیل میں ہے کہ ''وجد'' کے کچھ مراتب ہوتے ہیں اور بعض ایسے ہیں کہ جن میں اختیار سلب ہوجاتا ہے یعنی اختیار بالکل نہیں رہتا۔ پھربغیر تفصیل جاننے کے بیمار کی صحت یابی کی صورت پیداہونامشکل ہے۔(ت)
 (۲؎ مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر  کتاب الکراہیۃ  فصل فی المتفرقات     داراحیاء التراث العربی بیروت     ۲/ ۵۵۲)
شفاء العلیل علامہ شامی میں ہے:
لاکلام لنا مع الصدق من ساداتنا الصوفیۃ المبرئین عن کل خصلۃ ردیۃ فقد سئل امام الطائفتین سیدنا الجنید ان اقواما یتواجدون ویتمایلون فقال دعوھم مع اﷲ تعالٰی یفرحون ولوذقت مذاقھم عذرتھم فی صیاحھم وشق ثیابھم اھ، ولاکلام لنا ایضا مع من اقتدی بھم وذاق من مشربھم ووجدمن نفسہ الشوق والھیام فی ذات الملک العلام، بل کلامنا مع ھٰؤلاء العوام الفسقۃ اللئام الذین اتخذوامجلس الذکرشبکۃ لصیدالدنیا الدنیۃ وقضاء لشھواتھم الشنیعۃ الردیۃ ولسنا نقصدمنھم تعیین احدفاﷲ مطلع علی احوالھم ۱؎ اھ مختصراً۔
ہماراکلام سچائی پرمبنی ہے، ہمارے سادات صوفیاگھٹیا عادات سے پاک ہیں پس وہ نمائشی صوفیا سے نہیں، چنانچہ دوگروہوں کے امام سیدنا جنید بغدادی رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے پوچھا گیا کہ کچھ لوگ وجد کرتے اور لڑکھڑاتے ہیں (یعنی ادھرادھر جھومتے ہیں) اس بارے میں آپ کیافرماتے ہیں؟ ارشاد فرمایا کہ ان کو چھوڑدو یہ اﷲ تعالٰی سے خوشی پاتے ہیں اگرتجھے بھی ان جیسا ذوق حاصل ہوتاتو ان کو اس چلانے اورگریبان پھاڑنے میں معذورجانتااھ اور ہماراکلام ان سے بھی نہیں کہ جنہوں نے (مذکورہ بزرگوں کی) اقتداء کی اور ان کے مشرب کا ذائقہ چکھا اور اپنے اندر شوق اور جنون عشق، ملک علام(یعنی اﷲ تعالٰی کی ذات ستودہ صفات) میں پایا، بلکہ ہماری گفتگو ان عام لوگوں کے ساتھ ہے جوفاسق اور کمینے ہیں جنہوں نے محفل ذکرکاجال حقیراورمعمولی دنیا کے شکار کے لئے لگارکھاہے اور اپنے بدترین سفلی جذبات کی تسکین کے لئے محفل ذکر کو آڑبنایا اور ہم اس میں کسی ایک کے تعین کاارادہ نہیں رکھتے کیونکہ اﷲ تعالٰی ہی ان کے حالات سے پوری طرح آگاہ اور واقف ہے اھ مختصراً(ت)
 (۱؎ شفاء العلیل رسالہ من رسائل ابن عابدین     سہیل اکیڈمی لاہور     ۱/ ۷۳۔۱۷۲)
اسی کی منہیہ میں نورالعین فی اصلاح جامع الفصولین سے ہے۔ علامہ ابن کمال باشا نے اس سوال کے جواب میں فرمایا: ؎
مافی التواجد ان حققت من حرج	ولافی التمایل ان اخلصت من باس

فقمت تسعی علٰی رجل وحق لمن	دعاہ مولاہ ان یسعی علی الراس

 الرخصۃ فیما ذکر من الاوضاع عندالذکر والسماع للعارفین الصارفین اوقاتھم الٰی احسن الاعمال السالکین المالکین لضبط انفسھم من قبائح الاحوال فھم لایستمعون الا من الالہ  ولایشتاقون الالہ  ان ذکروہ ناحوا وان وجدوہ صاحوا، اذا غلب علیھم الوجد فمنھم من طرقتہ طوارق الہیبۃ فخروذاب ومنھم من برقت لہ بوارق اللطف فتحرک  وطاب ھذا ماعن لی فی الجواب۔ واﷲ اعلم بالصواب۱؎۔
جو وجدحقیقت پرمبنی ہو اگرجھومنا اخلاص سے ہو تواس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھرتوکھڑے ہوکرایک پاؤں پردوڑنے لگا جسے اس کا مولابلائے اس پرواجب ہے کہ سرکے بل دوڑپڑے۔ ذکراورسماع کے وقت اوضاع مذکورہ کی اجازت ہے ان عارفین کے لئے ہے جو اپنے اوقات بہترین اعمال بجالانے میں صرف کرتے ہیں اﷲ تعالٰی کی راہ اختیار کرتے ہیں، اپنے نفس کو قبیح اعمال سے روکنے پرقادرہوتے ہیں پھر وہ صرف اﷲ تعالٰی ہی سے سنتے اور اسی کے مشتاق رہتے ہیں، اگر اس کی یاد میں مصروف ہوں تو نوحہ کرنے لگتے ہیں اگر اسے پالیں تو چیخنے چلانے لگتے ہیں بشرطیکہ وہ وجد سے مغلوب ہوں، پھر ان میں کوئی وہ ہیں جنہیں مصائب الٰہی نے جھنجھوڑا توگرپڑے اورپگھل گئے اور ان میں کوئی وہ ہیں جن پرلطف وکرم کانزول ہوا تو خوش ہوکرمتحرک ہوگئے۔ میرے لئے یہی جواب ظاہرہوا۔ اور اﷲ تعالٰی راہ صواب کو خوب جاننے والاہے۔(ت)
(۱؎ منہیۃ علی ہذہ العبارت (شفاء العلیل)     سہیل اکیڈمی لاہور     ص۱۷۲)
سیدی عارف باﷲ علامہ عبدالغنی نابلسی حدیقہ ندیہ شرح طریقہ محمدیہ میں زیرکلام مذکورمتن فرماتے ہیں:

اعلم ان ھذا الذی سبق ذکرہ فی المتن من عبارات الفقہاء جمیعہ فی حق من ذکرناھم من طائفۃ متصوفۃ اﷲ اعلم بعیانھم، والافالوجدوالتواجد الذی تعلمہ الفقراء الصادقون فی ھذا الزمان وبعدہ کما کانوا یعلمونہ من قبل فی الزمان الماضی نور وھدایۃ واثرتوفیق من اﷲ تعالٰی وعنایۃ قال المناوی فی طبقات الاولیاء قیل للجنید قدس سرہ ان قوما یتواجدون قال دعوھم مع اﷲ یفرحون وقال النجم الغزی فی حسن التنبہ عند ذکرہ حال المولھین فی اﷲ فی باب تشبہ العاقل بالمجنون والیہ الاشارۃ بقولہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اکثرواذکراﷲ حتی یقولوا مجنون رواہ الامام احمد وابویعلی وابن حبان والحاکم وصححاہ عن ابی سعید الخدری رضی اﷲ تعالٰی عنہ، وربما غلب الولہ علی اھل اﷲ تعالٰی والوجد حتی یغیبوا من وجودھم فتبدوا منھم احوال وافعال لوصدرت عن مشاھد الفعل لحکموا علیہ انہ خرج عن حدالعقل کالرقص والدوران وتخریق الاثواب وھی حالۃ شریفۃ علامۃ صحتھا ان تحفظ علٰی صاحبھا اوقات الصلٰوات وسائرالفرائض فترد علیھم فیھا عقولھم وھذا حال جماعۃ من اولیاء اﷲ تعالٰی منھم الشبلی وابوالحسن النوری وسمنون المحب وسعدون المجنون وامثالھم،
متن میں تمام فقہاء کرام کی جن عبارات کا پہلے ذکرہوا یہ ان صوفیا کے حق میں ہے جو مذکور ہوئے اﷲ تعالٰی ان کی ذوات سے بخوبی واقف ہے، ورنہ وجداورتواجد جسے اس زمانے میں سچے فقراء ہی جانتے ہیں اور گزشتہ دور کے فقراء جانتے تھے وہ توایک نورہدایت اور اﷲ تعالٰی کی توفیق وعنایت کا ایک اثر ہے۔ علامہ مناوی نے طبقات الاولیاء میں فرمایا: حضرت جنید بغدادی قدس سرہ سے عرض کی گئی کہ کچھ لوگ وجد کرتے ہیں توفرمایا انہیں اﷲ تعالٰی کے ساتھ چھوڑدو کہ خوش رہیں۔ فرمایا نجم الغزی نے حسن التنبہ میں اﷲ تعالٰی کے معاملہ میں لوگوں کاحال ذکرکرتے ہوئے ''تشبہ عاقل بالمجنون'' کے باب میں کہ حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے اس ارشاد سے اسی طرف اشارہ فرمایا کثرت سے اﷲ تعالٰی کا ذکرکیا کرو یہاں تک کہ لوگ تمہیں دیوانہ کہنے لگیں۔ امام احمد، ابویعلٰی، ابن حبان اور حاکم نے اس کو روایت کیا اور آخری دونے اس کو صحیح قراردیا۔ اور حضرت ابوسعید خدری رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے حوالہ سے اس کو روایت کیاگیا۔ اور بعض اوقات ''اہل اﷲ'' پرحیرت اوروجد کی کیفیت غالب ہوتی ہے یہاں تک کہ وہ اپنے وجود سے غائب ہوجاتے ہیں یااپنا وجود کھوبیٹھتے ہیں تو ان سے ایسے حالات ظاہرہوتے ہیں اگرشاہد فعل سے صادرہوتے تو اس پرحکم لگاتے کہ یہ حدعقل سے خارج ہے جیسے ناچنا، گھومنا اور کپڑے پھاڑ ڈالنا۔ اور یہ ایک شریف حالت ہے اور اس کی صحت کی علامت یہ ہے کہ صاحب حالت پراوقات نمازاوردیگر فرائض محفوظ ہوتے ہیں پھر اس حالت میں ان کی عقلیں لوٹادی جاتی ہیں اور یہ حال اولیاء اﷲ کی ایک جماعت کاہے ان میں سے خواجہ شبلی، ابوالحسن نوری، سمنون محب، سعدون مجنون اور ان جیسے دیگراکابرین امت ہیں،
Flag Counter