مسئلہ ۳: ازملک بنگالہ شہر نصیر آباد قصہ لاما پڑا مرسلہ محمد علیم الدین صاحب ۵ جمادی الاولی ۱۳۱۴ھ
کارخیر مثل وعظ وغیرہ کے واسطے دُھل سے خبر کرنا جائز ہے یانہ ؟ یعنی ایسا مقام ہوکہ وہاں عوام الناس بہت ہی دین کے مسئلہ سے ناواقف اور وہاں کوئی علیم جاکر ڈھنڈورہ پٹوائے کہ فلاں روز میں وعظ کروں گا بقصد فائدہ عام اس صورت میں جائز ہو گا یا نہیں ؟ بینواتوجروا (بیان فرمائیے اجرپائیے ،ت)
الجواب
ظاہرجواز ہے اور بذریعہ اشتہار اعلان انسب ،
درمختار میں ہے :
من ضرب النوبۃ للتفاخر للتنبیہ فلاباس بہ۲۔
اسی لہو میں سے یہ بھی ہے کہ باری پر دف بجانا آپس میں فخر جتانے کے لیے ،اور اگر آگاہ اور ہوشیار کرنے کے لیے ہو تو کوئی حرج نہیں ۔(ت)
(درمختار کتاب الحظروالاباحۃ مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۲۳۸)
درمنتقی میں ہے :
ینبغی ان یکون بوق الحمام یجوز کضرب النوبۃ ۱۔
مناسب ہے کہ حمام میں حمام کابگل بجایا جائے کیونکہ یہ جائز باری کے دف کی طرح (ت)
(۱ الدر المنتقی فی شرحالملتقی علی ہامش مجمع الانہر کتاب الکراہیۃ باب فی المتفرقات بیروت ۲/ ۵۵۳)
ردالمحتار میں ہے :
وینبغی ان یکون طبل السحر فی رمضان لایقاظ النائمین للسحور کبوق الحمام تامل ۲۔واللہ تعالی اعلم۔
یہ بھی مناسب ہے کہ سحری کرنے والوں کے لیے سحری کے وقت طبل بجانا ،سونے والوں کو جگانے کے لیے ،حمام کے بگل بجانے کی طرح جائز ہے غور کیجئے ۔واللہ تعالی اعلم (ت)
(۲ ردالمحتار کتاب الحظر والاباحۃ دار احیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۲۲۳)
مسئلہ ۴ تا ۱۲: از الفی ملک مدراس مرسلہ حاجی عبدالرحمن خلف حاجی محمد ہاشم ۱۶ ربیع الاخر ۱۳۱۶ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس بارے میں کہ گزشتہ ۳ ماہ شوال ۱۳۱۵ھ کو یہاں ایک مسجد میں مولود شریف ہوا ،اکثر خاص اور عام اہل اسلام بقصد سماعت مولود شریف حاضر ہوئے ، جب میلاد خوانی سے فراغت ہوئی تھوڑے لوگ ان حاضرین سے اٹھ کھڑے ہوئے اور باہم دیگر ہاتھوں کو پکڑ کے حلقہ باندھ گئے اوراس حلقہ کے بیچ میں ایک شخص آکھڑا ہوا اور حلقہ والے لوگ رقص اور تمایل کے ساتھ ہَا ہُو مچا کے بڑے زور سے الااللہ کے طور سے ذکر کرنے کو شروع کئے یہاں رقص اورتمایل کا زور اوروہاں تصفیق کاشور یعنی بیچ میں جو شخص کہ کھڑا تھا اس نے حلقے والوں کے رقص اور تمایل کے وزن پر تصفیق نہایت موزونیت کے ساتھ کرتا تھا جب یہ غل شروع ہوا تو اکثر لوگ اس مجلس کے نکل کر چلے گئے بناءً علیہ اس حلقہ میں ایک شخص :
ومن اعرض عن ذکری فان لہ معیشۃ ضنکا ونحشرہ یوم القیمۃ اعمی ۳
الخ جس کسی نے میرے ذکر سے منہ پھیرا اس کےلیے تنگ گزران ہے اور ہم قیامت کے روز اسے اندھا ہونے کی صورت میں اٹھائیں گے الخ (ت)0
(۳القرآن الکریم ۲۰/ ۱۲۴ )
اس آیت کو پڑھ کے معنی بیان کیا کہ جو شخص ایسے ذکر کے مجلس سے اٹھ جاتا ہے اس کے حق میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اس کو قیامت کے روز اندھا کرکے اٹھاؤں گا ۔اس مضمون کو بڑے زور شور سے بیان کیا ،دوسرے روز بعض اصحاب علم نے اس شخص سے کہا کہ تو نے جو ذکر سے ہیئت کذائی مذکورہ مراد لیا سوسراسر غلط اور خلاف اصحاب تفسیر ہے دیکھ تفسیر جلالین ۔یہ سنتے ہی اس شخص نے کہا کہ تفسیر جلالین ظاہری تفسیر ہے اہل باطن کے لیے قاعدہ دوسرا ہے ،انجام اس نے تفسیر جلالین کو حقارت کا الزام دیا ، بنابر اس کے دریافت کیا جاتاہے :
(۱) جو مسلمان اس محفل سے نکل گئے وہ قیامت کے روزاندھے ہوکے اُٹھیں گے۔ یہ بات صحیح ہے یانہیں؟
(۲) مذکورہ شخص ذکر سے یہ ہیئت کذائی مراد لیاسو درست ہے یانہیں؟
(۳) ومن اعرض عن ذکری۱؎
سے یہاں کیامراد اور شان نزول اس آیت کاکیاہے؟
(۱؎ القرآن الکریم ۲۰/ ۱۲۴)
(۴) تفسیرجلالین کی جو حقارت کرے اس کے لئے شرع شریف میں کیاسزاہے؟
(۵) جومسلمان اس مجلس سے نکل گئے وہ قیامت کے روز اندھے ہوکر اٹھیں گے، یہ بات صحیح نہیں تو ایسے الفاظ سے مسلمانوں پرتہمت ڈالنے والاشخص ازروئے اسلام کون ہے؟
(۶) تفسیرجلالین کی حقارت کرنے والے پرکفرثابت ہوتاہے یانہیں؟
(۷) ایسے شخص کے پیچھے نمازدرست ہے یانہیں؟
(۸) تجدیداسلام یاتوبہ لازم ہوتاہے یانہیں؟
(۹) ان حلقے والوں کاذکر جس کی ہیئت اوپر ذکرکی گئی ہے ایساذکراور رقص اور تصفیق (تالی بجانا) شرع شریف میں درست ہے یانہیں؟ اور جوشرع کو ایساویسا سمجھے اور معرفت کادعوٰی کرے لوگوں کو بموجب شرع شریف کیاکہناچاہئے؟ بیّنواجزاکم اﷲ فی الدارین (بیان فرماؤ کہ اﷲ تعالٰی دنیاوآخرت میں تمہیں بہترین عطافرمائے۔ت)
الجواب: حلقہ ذکرجبکہ نہ بروجہ ریاوسمعہ بلکہ خالصاً لوجہ اﷲ ہو فی نفسہٖ امرمحبوب ومندوب ہے اور اس میں حضور شرعاً مامورومطلوب رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: اذامررتم بریاض الجنۃ فارتعوا ۔جب تم جنت کی کیاریوں پرگزرو تو ان کے پھل پھول سے تمتع کرو قالوا وماریاض الجنّۃ صحابہ نے عرض کی یارسول اﷲ! وہ جنت کی کیاریاں کیا ہیں؟ فرمایا، ذکرکے حلقے۔
رواہ احمد۱؎ والترمذی والبیھقی فی شعب الایمان عن انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ بسند جید۔
مسند امام احمد، امام ترمذی اور امام بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ کی بہترین سند سے اس کو روایت کیا۔(ت)
اور یہ رقص اگرمعاذاﷲ بروجہ تصنّع وریاء ہے حرام قطعی وجریمہ فاحشہ ہے اور بطورلہوولعب بھی ناجائزومسقط عدالت، اور تمایل کے ساتھ مثل رقص فواحش اشد حرام، نصاب الاحتساب باب سادس پھرتاتارخانیہ پھرفتاوٰی خیریہ میں ہے:
مسئلہ کیاسماع (قوالی) میں ناچ جائزہے؟ جواب جائز نہیں، اور ذخیرہ میں ذکرکیاگیا کہ ناچنا کبیرہ گناہ ہے اورمشائخ میں سے جس نے اسے مباح قراردیا وہ اس کے حق میں ہے جس کی حرکات مثل رعشہ والے کے بے اختیارہوں الخ(ت)
لاتقبل ممن یلعب بلھو شنیع بین الناس کالطنابیر والمزامیر وان لم یکن شفیعا نحوالحداء فلا الا اذا فحش بان یرقصوا بہ، خانیۃ لدخولہ فی حد الکبائر ۳؎ بحر اھ ملتقطا۔
جو شخص لوگوں میں براکھیل تماشاکرے جیسے طنبور (ستار) کااستعمال اور مزامیر(بانسری) وغیرہ، آلاتِ راگ وغیرہ کا استعمال تو وہ مردودالشہادۃ ہوگا یعنی اس کی گواہی قابل قبول نہ ہوگی اگر راگ بے حد بُرانہ ہو جیسے عربی گیت مثلاً حدی خوانی تو وہ ممنوع نہیں لیکن اگر اس میں فحش کلام اور ناچ وغیرہ شامل ہوں تو ممنوع ہے، خانیہ، اس لئے کہ وہ کبیرہ گناہوں میں داخل ہوگیا، بحراھ ملتقطا۔(ت)
(۳؎ درمختار کتاب الشہادات باب القبول مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۹۵)
علامہ برکوی طریقہ محمدیہ میں فرماتے ہیں:
یدخل فیہما مایفعلہ بعض الصوفیۃ بل ھو اشد لانھم یفعلونہ علی اعتقاد العبادۃ قال الامام ابوالوفاء بن عقیل رحمہ اﷲ قد نص القراٰن علی النھی عن الرقص فقال و لاتمش فی الارض مرحا وذم المختال بقولہ ان اﷲ لایحب کل مختال فخور، والرقص اشد من المرح والبطر وقال ابوبکر الطرطوسی رحمہ اﷲ تعالٰی فاول من احدثہ اصحاب السامری لما اتخذ عجلا جسدالہ خوار قاموا یرقصون علیہ ویتواجدون وقال البزازی فی فتاواہ قال القرطبی ھذا الرقص حرام بالاجماع وسید الطائفۃ احمد السنوی صرح بحرمتہ ورأیت فتوٰی شیخ الاسلام جلال الدین الکیلانی ان مستحل ھذا الرقص کافر وللزمخشری فی کشافہ کلمات فیھم تقوم بھا علیھم الطامات وللامام المحبوبی اشد من ذلک انتھٰی قلت من لہ انصاف اذا راٰی رقص صوفیۃ زماننا فی المساجد والدعوات مختلطا بھم المرد واھل الاھواء والقری من جھال العوام والمبتدعۃ الطغام لایعرفون الطھارۃ والقراٰن والحلال والحرام بل لایعرفون الایمان والاسلام لھم زعیق وزئیرمثل ھائی وھویئ وھییئ وھیا یقول لامحالۃ ھٰؤلاء اتخذوا دینھم لھواولعبا۱؎ اھ ملخصا۔
جوکچھ صوفیہ کرتے ہیں وہ اس میں داخل ہے بلکہ زیادہ سخت جرم ہے کیونکہ یہ کام اعتقاد عبادت کی بناپرکرتے ہیں، چنانچہ امام ابوالوفا ابن عقیل رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا ناچنے سے منع کرنے پر قرآن مجید کی تصریح موجود ہے۔ اﷲ تعالٰی کاارشاد ہے زمین پراتراکرنہ چلو۔ اﷲ تعالٰی نے اپنے اس ارشاد سے اترانے والے کی مذمت فرمائی بے شک اﷲ تعالٰی کسی اترانے والے، فخرکرنے والے کوپسندنہیں کرتا او رناچنا، اترانا، فخرکرنا ایک جیسے اعمال ہیں بلکہ ناچنا اترانے اور فخرکرنے سے بھی بڑاجرم ہے۔ ابوبکرطرطوسی رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا سب سے پہلے جس نے اس بدعت کوایجادکیا وہ اصحاب سامری ہیں جب انہوں نے بچھڑے کاایک ڈھانچہ تیارکیاجو گائے جیسی آواز نکالتاتھا یاجس سے گائے کی آواز کی طرح آواز نکلتی تھی تو وہ کھڑے ہوکر اس کے سامنے ناچنے لگے اور وجدکرنے لگے یعنی جھومنے لگے۔ امام بزازی نے اپنے فتاوٰی بزازیہ میں فرمایا ناچ بالاجماع حرام ہے۔ سیدالطائفہ احمدسنوی نے اس کی حرمت کی صراحت فرمائی ہے، میں نے شیخ الاسلام جلال الدین گیلانی کافتوٰی دیکھا جس میں کہاگیا کہ ناچ کو حلال کرنے والا یعنی جائزقراردینے والا کافرہے۔ علامہ زمخشری نے اپنی تفسیر کشاف میں ان کے متعلق ایسے کلمات لکھے ہیں کہ جن سے ان پر بڑے مصائب قائم ہوسکتے ہیں اور امام محبوبی کے کلمات ان سے بھی زیادہ سخت ہیں اھ، میں کہتاہوں کہ جس کی طبیعت میں انصاف ہو وہ ذرا ہمارے زمانے کے صوفیا کامساجد میں ناچنا کودنا شورمچانادیکھے کہ بےریش لونڈے خواہشات نفسانی کے متوالے، جاہل دیہاتی اور بیوقوف بدعتی ان میں ملے جلے ہوتے ہیں جوطہارت سے ناآشنا، قرآن مجید کے ادب سے ناواقف اور حلال وحرام کی پہچان سے بے بہرہ ہوتے ہیں جوسوائے چیخنے چلّانے کے اور کچھ نہیں جانتے ایمان اوراسلام کی معرفت سے لاعلم ہوتے ہیں، فرمایا ان لوگوں نے اپنے دین کو کھیل تماشابنارکھا ہے اھ ملخصا۔(ت)
(۱؎ طریقہ محمدیہ الصنف التاسع فی آفات بدن الخ مکتبہ حنفیہ کانسی روڈ کوئٹہ ۲/ ۶۷۔۲۶۴)