(میں اﷲ تعالٰی سے مغفرت چاہتا ہوں، تو کیا بعض کتاب پر ایمان لاتے ہو اور بعض کا انکار کرتے ہو۔ت) اﷲ سبحٰنہ وتعالٰی فرماتا ہے سود کھانیوالے قیامت کو آسیب زدہ کی طرح اٹھیں گے ۲؎یعنی مجنونانہ گرتے پڑتے بدحواس۔
(۱؎ القرآن الکریم ۲/ ۸۵ )(۲؎القرآن الکریم ۲/ ۲۷۵)
اور حضور پر نور سرور عالم صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :میں نے کچھ لوگ ملاحظہ فرمائے کہ پیٹ ان کے پھول کر مکانوں کے برابر ہوگئے ہیں اور مثل شیشہ کے ہیں کہ اندر کی چیز نظر آتی ہے سانپ بچھو ان میں بھرے ہیں، میں نے دریافت کیا یہ کون لوگ ہیں؟جبریل نے عرض کیا : سود کھانے والے۳؎۔
(۳؎ سنن ابن ماجہ باب التغلیظ فی الربا ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۱۶۵)
جب تحریم ربٰو کی آیت نازل ہوئی بعض مسلمانوں نے کہا: جو سودہمارانزولِ آیت سے پہلے کا رہ گیا ہے وہ لے لیں آئندہ باز رہیں گے۔ حکم آیا اگر نہیں مانتے تو اعلان کردو اﷲ اور اﷲ کے رسول سے لڑائی کا۔۴؎
(۴؎ القرآن الکریم ۲/ ۲۷۹)
سیدنا جابر بن عبداﷲ انصاری رضی اﷲ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے سود خور پر لعنت کی۔۵؎
(۵؎ صحیح مسلم باب الربا قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۲۷)
مولٰی علی کرم اﷲ وجہہ فرماتے ہیں: میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو سود خور پر لعنت فرماتے سنا۶؎،رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: سود کے ستر ٹکڑے ہیں سب سے ہلکا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زنا کرے۷؎۔
(۶؎ مسند احمد بن حنبل دارالفکر بیروت ۱/ ۱۵۸)
(۷؎ سنن ابن ماجہ باب التغلیظ فی الربا ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۱۶۵ و مشکوٰۃ المصابیح، باب الربا، مطبع مجتبائی دہلی ص۲۴۶)
دیکھو اول ان کے اقوال خبیثہ یاد فرماکر آخر ان کے شرک سے اپنی نزاہت وتبری بیان فرمائی تو معلوم ہوا کہ قائلین بنوت مشرکین ہیں مگر ظاہرالروایۃ میں ان پر علی الاطلاق حکم کتابیت دیا اور ان کے ذبائح ونساء کو حلال ٹھہرایا،
درمختار میں ہے:
صح نکاح کتابیۃ وان کرہ تنزیھا مؤمنۃ بنبی مرسل مقرۃ بکتاب منزل وان اعتقدوا المسیح الٰھا وکذاحل ذبیحتھم علی المذھب بحرانتہی۱؎۔
کتابیہ عورت سے نکاح صحیح ہے اگرچہ مکروہ تنزیہی ہے بشرطیکہ وہ عورت کسی مرسل نبی پر ایمان رکھتی ہو اور کسی منزل من اﷲ کتاب کا اقرار کرتی ہواگرچہ عمومی طور پر وہ نصاری عیسٰی علیہ السلام کو الٰہ مانتے ہوں یونہی ان کا ذبیحہ بھی مذہب میں حلال ہے، بحر، اھ۔(ت)
(۱؎ درمختار کتاب النکاح فصل فی المحرمات مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۱۸۹)
ردالمحتار میں بحرالرائق سے منقول ہے:
وحاصلہ ان المذھب الاطلاق لما ذکرہ شمس الائمۃ فی المبسوط من ان ذبیحۃ النصرانی حلال مطلقًا، سواء قال بثالث ثلثۃ اولا، لاطلاق الکتاب ھنا وھو الدلیل ورجحہ فی فتح القدیرالخ۲؎۔
حاصل یہ ہے کہ مذہب میں اطلاق ہے کیونکہ شمس الائمہ سرخسی نے مبسوط میں یہ ذکر کیا ہے کہ نصرانی کا ذبیحہ مطلقًا حلال ہے وہ عیسٰی علیہ السلام کے متعلق ثالث ثلٰثہ کا قول کریں یا نہ کریں کیونکہ کتاب اﷲ کا یہاں ا طلاق ہے اور یہی دلیل ہے، اس کو فتح القدیر میں ترجیح دی ہے الخ(ت)
(۲؎ ردالمحتار کتاب النکاح فصل فی المحرمات داراحیاء التراث العربی بیروت ۲/ ۲۸۹)
مستصفٰی میں عبارت مذکورہ کے بعد مبسوط سے ہے:
لکن بالنظر الی الدلائل ینبغی ان یجوز الاکل والتزوج انتہی۳؎۔
لیکن دلائل کو دیکھتے ہوئے یہی مناسب قول ہے کہ ان کا ذبیحہ کھانا اور ان کی عورتوں سے نکاح جائز ہے انتہی۔(ت)
(۳؎ فتح القدیر بحوالہ المستصفٰی کتاب النکاح فصل فی بیان المحرمات مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۳/ ۱۳۵)