جواب سوال دوم
نصارٰی باعتبار حقیقت لغویہ انجاکہ قیام مبدء مستلزم صدق مشتق ہے بلا شبہہ مشرکین ہیں کہ وہ بالقطع قائل بہ تثلیث وبنوت ہیں اسی طرح وہ یہودجو الوہیت وابنیت عزیرعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے قائل تھے، مگر کلام اس میں ہے کہ حق تبارک وتعالٰی نے کتب آسمانی کا اجلال فرماکر یہود و نصارٰی کے احکام کو احکامِ مشرکین سے جدا کیا اور ان کا نام اہل کتاب رکھا اور ان کے نساء و ذبائح کو حلال و مباح ٹھہرایا آیا نصارٰی زمانہ بھی کہ الوہیتِ عبداﷲ مسیح بن مریم علیہما الصلوٰۃ والسلام کی علی الاعلان تصریح اور وہ یہود جو مثل بعض طوائف ماضیہ الوہیت بندہ خدا عزیر علیہ الصلوٰۃوالسلام کے قائل ہوں انہیں میں داخل اور اس تفرقہ کے مستحق ہیں یا ان پر شرعاً یہ ہی احکام مشرکین جاری ہوں گے اور ان کی نساء سے تزوّج اور ذبائح کا تناول ناروا ہوگا۔ کلماتِ علماءِ کرام رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہم اجمعین اس بارے میں مختلف، بہت مشائخ نے قولِ اخیر کی طرف میل فرمایا، بعض علماء نے تصریح کی کہ اسی پر فتوی ہے،
مستصفی میں ہے:
قالواھذایعنی الحل اذالم یعتقد واالمسیح الٰھا امااذااعتقدوہ فلاوفی مبسوط شیخ الاسلام ویجب ان لایأکلوا ذبائح اھل الکتاب اذا اعتقد وان المسیح الٰہ وان عزیر الٰہ ولا یتزوّجو انساء ھم وقیل علیہ الفتوی۲؎۔
علماء نے فرمایا کہ ان کا ذبیحہ تب حلال ہوگا کہ وہ عیسٰی علیہ السلام کو الٰہ نہ مانتے ہوں، لیکن اگر وہ ان کو الٰہ مانتے ہوں تو پھر حلال نہ ہوگا، اور شیخ الاسلام کی مبسوط میں ہے کہ مسلمانوں پر لازم ہے کہ اہلِ کتاب کا ذبیحہ اس صورت میں نہ کھائیں جب وہ مسیح علیہ السلام اور عزیر علیہ السلام کو الٰہ مانتے ہوں اور اندریں صورت ان کی عورتوں سے نکاح بھی نہ کریں، اسی پر فتوٰی کہا گیا ہے۔(ت)
(۲؎ فتح القدیر بحوالہ المستصفٰی کتاب النکاح فصل فی بیان المحرمات مکتبۃ نوریہ رضویہ سکھر ۳/ ۱۳۵)
ان علماء کا استدلال آیہ کریمہ
"قالت الیھود عزیر ابن اﷲ وقالت النصٰرٰی المسیح ابن اﷲ
(یہود نے کہا عزیر ابن اﷲ اور نصارٰی نے کہا مسیح ابن اﷲ۔ت) سے ہے کہ اس کے آخرمیں ارشاد پایا
سبحٰنہ وتعالٰی عمّایشرکون۳؎
(وہ پاک ذات ہے اور جو انہوں نے اس کا شریک بنایا اﷲ تعالٰی اس سے بلند وبالا ہے۔ت)
(۳؎ القرآن الکریم ۹/ ۳۱)
ردالمحتار میں ہے:
فی المعراج ان اشتراط ماذکر فی النصاری مخالف لعامۃ الروایات۱؎۔
معراج میں ہے کہ نصارٰی کے مذکورہ شرائط عام روایات کے مخالف ہیں ۔(ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب الذبائح داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۱۸۸)
امام محقق علی الاطلاق مولٰنا کمال الملۃ والدین محمد بن الہمام رحمۃ اﷲ علیہ فتح القدیر میں اس مذہب کی ترجیح اور دلیل مذکور مذہب اول کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:
مطلق لفظ المشرک اذاذکر فی لسان الشارع لاینصرف الی اھل الکتاب وان صح لغۃ فی طائفۃ بل طوائف واطلق لفظ الفعل اعنی یشرکون علی فعلھم کما ان من رأی بعلمہ من المسلمین فلم یعمل الالاجل زید یصح فی حقہ انہ مشرک لغۃ ولایتبادر عند اطلاق الشارع لفظ المشرک ارادتہ لما عھد من ارادتہ بہ من عبد مع اﷲ غیرہ ممن لایدعی اتباع نبی وکتاب ولذلک عطفھم علیہ فی قولہ تعالٰی لم یکن الذین کفر وامن اھل الکتٰب والمشرکین منفکین ونص علی حلھم بقولہ تعالٰی والمحصنٰت من الذین اوتوالکتٰب من قبلکم ای العفائف منھم۲؎الی اٰخرما اطال واطاب کما ھودابہ رحمہ اﷲ تعالٰی۔
لفظ مشرک جب مطلق ذکر کیا جائے تو شرعی اصطلاح میں اہل کتاب کو شامل نہ ہوگا اگرچہ لغت کے لحاظ سے اہل کتاب کے کسی گروہ یا کئی گروہوں پر اس کا اطلاق صحیح ہے، اہل کتاب کے فعل پر صیغہ "یشرکون" کا اطلاق ایسے ہے جیسے کسی مسلمان ریاکار کے اس عمل پر جس کو مثلاً زید کی خوشنودی کےلئے کررہا ہوتو کہا جاسکتا ہے کہ یہ لغت کے لحاظ سے مشرک ہے، شرعی اصطلاح میں مطلقًا لفظ مشرک کا استعمال صرف اس شخص کے لئے متبادر ہوتا ہے، جو کسی نبی اور کتاب کی اتباع کے دعوٰی کے بغیر اﷲ تعالٰی کی عبادت میں غیر کو شریک کرے اسی لئے اہل کتاب پر مشرکین کا عطف اﷲ تعالٰی کے اس قول
''لم یکن الذین کفروا من اھل الکتٰب والمشرکین منفکین''
میں کیا گیا ہے اور اﷲتعالٰی کے اس قول
''والمحصنٰت من الذین اوتوالکتٰب''
میں کتابیہ عورتوں کے حلال ہونے پر صراحتاً نص فرمائی گئی ہے یعنی اہل کتاب کی عفیف عورتیں حلال ہیں، ابن ہمام کے طویل اور طیب قول کے آخر تک، جیسا کہ ان کی عادت ہے، اﷲ تعالٰی ان پر رحمت فرمائے۔(ت)
(۲؎ فتح القدیر کتاب النکاح فصل فی بیان المحرمات مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۳/ ۱۳۵)
بالجملہ محققین کے نزدیک راجح یہی ہے کہ یہود ونصارٰی مطلقاً اہل کتاب ہیں اور ان پر احکام مشرکین جاری نہیں
اقول وکیف لاوقد علم اﷲ سبحٰنہ وتعالٰی انھم یقولون بثالث ثلٰثۃ حتی نھاھم عن ذٰلک وقال انتھوا خیرالکم۱؎وان ھم یقولون ان المسیح الٰہ حتی قال لقد کفر الذین قالواان اﷲ ھوالمسیح ابن مریم۲؎ بل بالوھیۃ امہ ایضاحتی یسألہ علیہ الصلٰوۃ والسلام یوم القٰیمۃ ٰیعیسٰی ء انت قلت للناس اتخذونی وامی الٰھین من دون اﷲ،۳؎وانھم مصرحون بالبنوۃ حتی نقل عنھم''قالت الیھود عزیر ابن اﷲ وقالت النصٰری المسیح ابن اﷲ ۴؎ ومع ذٰلک فرق بینھم وبین المشرکین فقال والمحصنٰت من الذین اوتواالکتٰب من قبلکم۵؎، وقال طعام الذین اوتوا الکتٰب حل لکم ۶؎ وقال لم یکن الذین کفروا من اھل الکتٰب والمشرکین منفکین حتی تاتیھم البینۃ۷؎ فارشد بالعطف الی التغایر
اقول(میں کہتا ہوں) یہ کیسے مرادنہ ہو جبکہ اﷲ تعالٰی علیم ہے کہ نصارٰی ثالث ثلثہ کہتے ہیں حتی کہ ان کو اس سے منع بھی فرمایا اور فرمایا اس سے باز آؤ تمہارے لئے بہتر ہے اور وہ علیم ہے کہ نصارٰی کہتے ہیں مسیح الہٰ ہے، حتی کہ اﷲ تعالٰی نے فرمایا
"لقد کفر الذین قالواان اﷲ ھو المسیح ابن مریم"
بلکہ وہ ان کی والدہ کو بھی الٰہ کہتے ہیں، حتی کہ قیامت کے روز اﷲ تعالٰی عیسی علیہ السلام سے سوال فرمائے گا
"یاعیسٰی ءانت قلت للناس اتخذونی وامی الٰھین من دون اﷲ"
اور وہ علیم ہے کہ یہ لوگ عیسٰی علیہ السلام کے بیٹا ہونے کی تصریح کرتے ہیں حتی کہ ان سے نقل فرمایا
"قالت الیھود عزیر ابن اﷲ وقالت النصارٰی المسیح ابن اﷲ"
اس کے باوجود اﷲ تعالٰی نے اہلِ کتاب اور مشرکین میں فرق بیان فرمایا، اور ارشاد فرمایا: تمہارے لئے حلال ہیں پار ساعورتیں ان میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب ملی، اور فرمایا جن کو کتاب دی گئی(اہلِ کتاب) ان کا طعام تمہارے لئے حلال ہے جس کو یوں فرمایا
"طعام الذین اوتواالکتٰب حل لکم"
اورفرمایا"
لم یکن الذین کفروا من اھل الکتٰب والمشرکین منفکین حتی تاتیھم البینۃ"
واضح دلیل آنے تک کافر لوگوں میں سے اہل کتاب اور مشرک جدانہ ہوں گے، تو اس آیۃ کریمہ میں دونوں میں عطف کے ذریعہ تغایر کی رہنمائی فرمائی،
(۱؎ القرآن الکریم ۴/ ۱۷۱ )(۲؎ القرآن الکریم ۵/ ۱۷ و ۷۲)(۳؎ القرآن الکریم ۵/ ۱۱۶ )(۴؎ القرآن الکریم ۹/ ۳۰)
(۵؎ القرآن الکریم ۵/۵ )(۶؎ القرآن الکریم ۵/۵)(۷؎ القرآن الکریم ۹۸/ ۱)