Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۴(کتاب السیر)
3 - 150
دررغرر و تنویر الابصار ودرمختار ومجمع الانہر وغیرہا میں کہ شرطِ اول کوصرف بلفظ اجرائے احکام الشرک سے تعبیر کیا وہاں بھی یہ ہی مقصود کہ اس ملک میں کلیۃً احکام کفر ہی جاری ہوں نہ یہ کہ مجرد جریان بعض کفر کافی ہے اگرچہ ان کے ساتھ بعض احکام اسلام بھی اجراء پائیں۔
فی الحاشیۃ الطحطاویۃ علی الدرالمختار قولہ باجراء احکام اھل الشرک ای علی الاشتھار وان لایحکم فیھا بحکم اھل الاسلام، ہندیۃ وظاھرہ انہ لواجریت احکام المسلمین واحکام اھل الشرک لاتکون دارحرب انتہی۲؎۔
درمختار کے حاشیہ طحطاوی میں ہے
قولہ باجراء احکام اھل الشرک
 (اس کا قول کہ اہل شرک کے احکام کے اجراء سے دارالحرب بن جاتا ہے) سے مراد یہ ہے کہ وہاں اعلانیہ احکامِ شرک نافذ کئے جائیں اور اہل اسلام کا کوئی حکم بھی نافذ نہ ہو، ہندیہ میں یوں ہےکہ اس سے ظاہر ہے کہ اگر وہاں احکامِ شرک اور احکامِ اسلام دونوں نافذ ہوں تو دارالحرب نہ ہوگااھ۔(ت)
 (۲؎ حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار     کتاب الجہاد      فصل فی استیمان الکافر   دارالمعرفۃ بیروت   ۲/ ۴۶۰)
اور اسی طرح حاشیہ شامیہ میں نقل کرکے مقرر رکھا،
اقول و باﷲ التوفیق والدلیل علی ذٰلک امران الاول قول محمد وھوالطراز المذھب انھا تصیردارحرب عند الامام بشرائط ثلث احدھا اجراء احکام الکفار علی سبیل الاشتھار وان لایحکم فیھا بحکم الاسلام فانظر کیف زادالجملۃ الاخیرۃ ولم یقتصر علی الاولی فلو لم یفسر کلامھم بماذکرنا لکان کلام الامام قاضیا علیھم وناھیک بہ قاضیا عدلا،
اقول وباﷲالتوفیق(میں کہتا ہوں او ر توفیق اﷲ تعالٰی سے ہے) اس پر دلیل دو چیزیں ہیں: اول یہ کہ امام محمد رحمہ اﷲ تعالٰی جو مذہب کے ترجمان ہیں ان کا یہ قول کہ وہ علاقہ امام صاحب رحمہ اﷲ تعالٰی کے نزدیک تین شرطوں سے دارالحرب بنتا ہے ان میں سے ایک یہ کہ وہاں کفار کے احکام اعلانیہ جاری کئے جائیں اور کوئی اسلامی حکم نافذ نہ ہو، تو غور کرو کہ انہوں نے آخری جملہ کیسے زائد فرمایا اور صرف پہلے جملہ پر اکتفاء نہ فرمایا، اگر فقہاء کا کلام ہمارے ذکر کردہ بیان سے واضح نہ بھی کیاجائے توصرف امام صاحب کا کلام ہی فیصلہ کن ہے تجھے یہی فیصلہ کن کلام کافی ہے
فالثانی ان ھٰؤلاء العلماء ھم الذین قالوا فی دارالحرب انھا تصیر دارالاسلام باجراء احکام الاسلام فیھا فاما ان تقولوا ھٰھنا ایضا انھا تصیردار الاسلام باجراء بعض احکام الاسلام ولومع جریان بعض احکام الکفر فعلی ھذاترفع المباینۃ بین الدارین اذکل دارتجری فیھا الحکمان مع استجماع بقیۃ شرائط الحربیۃ تکون دارحرب واسلام جمیعا لصدق الحدین معًا وکذا لواردت الخلوص والتمحض فی کل الموضعین یعنی ان دارالحرب مایجری فیھا احکام الشرک خالصۃ ودارالاسلام مایحکم فیھا باحکام الاسلام محضۃ فعلی ھذاتکون دارالتی وصفناھالک واسطۃ بین الدارین ولم یقل بہ احد، واماان ترید التمحض فی المقام الثانی دون الاول فھذا یخالف ماقصدہ الشارع من اعلاء الاسلام وبنی العلماء کثیرا من الاحکام علی ان الاسلام یعلوولایعلی، علی انہ یلزم ان تکون دورالاسلام باسرھا دور حرب علی مذھب الصاحبین اذااجری فیھا شیئ من احکام الکفر او حکم فیھا بعض مالم ینزل اﷲ سبحٰنہ وتعالٰی وھو معلوم مشاہد فی ھذہ الامصار بل من قبلھا بکثیر حیث فشاالتھاون  فی الشرع الشریف وتقاعد الحکام عن اجراء احکامہ وترقی اھل الذمۃ علی خلاف مراد الشریعۃ عن ذل ذلیل الی عزجلیل اعطوامناصب رفیعۃ ومراتب شامخۃ منیعۃ حتی استعلواعلی المسلمین ورحم اﷲ للقائل کما نقل المولی الشامی؎ 

حبابنانوب الزمان کثیرۃ

وامرّمنھا رفعۃ السفھاء

فمتی یفیق الدھر من سکراتہ

وأری الیھود بذلۃ الفقھاء ۱؎

وکذلک ارتضی بعض الظلمۃ من حکام الجور بعض البدعات التی خرقھا ائمۃ الکفر فاجروھا فی بلادھم کتحلیف الشھود و الزام المصادرات والمکوس ووضع الوظائف الباطلۃ علی الاموال والنفوس الی غیر ذٰلک من الاحکام الباطلۃ ویسلم ھذاالامر الفظیع من اشنع الشنائع الھائلۃ فوجب القول بان المراد فی المقام الاول ھوالخلوص والتمحض دون الثانی وھو المقصود ،
دوسری چیز یہ کہ یہی وہ علماء کرام ہیں جنہوں نے دارالحرب کے متعلق فرمایا کہ وہ دارالاسلام بن جاتا جب اس میں اسلامی احکام جاری کئے جائیں، تو اگر یہاں بھی وہ بعض اسلامی احکام مراد لیں(جس طرح کہ دارالحرب کے لئے کفار کے بعض احکام تم نے مراد لئے) تو جب بعض اسلامی احکام کے ساتھ کچھ احکام کفار ہوں گے تو اس سے دارالحرب اور دارالاسلام کے درمیان فرق ختم ہوجائے گا، کیونکہ ان دونوں میں سے ہرایک میں دونوں قسم کے حکم پائے جائیں گے اگرچہ کفار کے احکام زائد  ہوں تو لازم آئے گا کہ ہر ایک دارالحرب اور دارالاسلام بھی ہو کیونکہ دونوں پر ہرایک کی تعریف صادق آئے گی، اگر تم یہاں یہ مراد لو کہ ہر دار میں اس کے تمام احکام وہاں نافذ ہوں اور ایک دوسرے کے احکام سے خالی ہوں یعنی دارالحرب وہ ہے جس میں تمام احکام خالص کفر کے ہوں اور دارالاسلام وہ ہے جس میں خالص اسلامی احکام ہوں، تو اس سے لازم آئے گا کہ جس دار کی بحث ہورہی ہے وہ دونوں داروں میں واسطہ کہلائے گا یعنی وہ نہ دارالاسلام ہونہ دارالحرب ہو، حالانکہ ایسے دار کا کوئی بھی قائل نہیں، اگر تم یہ مراد لو کہ ثانی یعنی دارالاسلام میں توخالص اسلامی ہوں اورد وسرے یعنی دارالحرب میں خالص ہونا ضروری نہیں تو اس سے شارع کا مقصد اعلاء کلمہ اسلام اور اس کی ترجیح فوت ہوجائیگی جو شارع کے مقصد کے خلاف ہے جبکہ علماء نے بہت سے احکام''الاسلام یعلوولایعلٰی''(اسلام غالب ہوتا ہے مغلوب نہیں ہوتا) کے قاعدہ پر مبنی قرار دئے ہیں، علاوہ ازیں یہ بھی لازم آئے گا کہ تمام دارالاسلام صاحبین کے مذہب پر دارالحرب قرار پائیں جبکہ ان میں کچھ احکامِ کفر پائے جاتے ہوں یااﷲ تعالٰی کے نازل کردہ حکم کے خلاف وہاں حکم نافذ پائے جاتے ہوں جیسا کہ آج کے دور میں مشاہدہ ہے بلکہ قبل ازیں بھی ایسا رہاہے جب سے شریعت کے بارے میں سستی ظاہرہوئی اور مسلمان حکام نے شرعی احکام کے نفاذ سے رو گردانی کر رکھی ہے، اور ذمی حضرات کو ترقی ملی ہے کہ خلافِ شرع ذلیل کی ذلت سے نکل کر بڑی عزت پارہے ہیں جن کو مسلمان حکمرانوں نے بلند منصب اور محفوظ مراتب عطا کررکھے ہیں یہاں تک کہ وہ مسلمانوں پر تعلی کرنے لگے ہیں، اﷲ تعالٰی ایک قائل پر رحم فرمائے جس کا کلام مولانا شامی نے نقل کیا ہے



(شعر کا ترجمہ)

''دوستو! زمانہ کے مصائب کثیر ہیں، ان میں سے سخت ترین بیوقوف لوگوں کا اقتدا ر ہے، تو کب زمانے کا نشہ ختم ہوگا جبکہ ملک یہودی بن کر فقہاء کی ذلت گاہ بن چکا ہے''۔

اور جیسا کہ بعض ظالم حکمرانوں نے کافر لیڈروں کی جاری کردہ کئی بدعات کو پسند کرتے ہوئے اپنے ملکوں میں جاری کردیا مثلاً گواہوں سے حلف لینا، اور ٹیکس، چونگیاں اور لوگوں کے اموال اور نفوس پر باطل قسم کے محصولات لاگو کردئے، یہ پریشان کن برے معاملات مسلمان ملکوں میں ماننے پڑیں گے لہذا ضروری ہے کہ پہلے مقام یعنی دارالحرب میں خالص مکمل احکام کفر ہوں اور دوسرے یعنی دارالاسلام میں ایسا نہ ہو جبکہ یہی مدعٰی ہے،
 (۱؎ ردالمحتا ر    کتاب الجہاد         داراحیاء التراث العربی بیروت    ۳/ ۲۷۵)
وبھذا تبین ان الدارالتی تجری فیھا الحکمان شیئ من ھذاوشیئ من ھذاکدارنا ھٰذہ لاتکون دارحرب علی مذھب الصاحبین ایضا لعدم تمحض احکام الشرک فمن الظن  ماعرض لبعض المعاصرین من بناء نفی الحربیۃ علی الھند علی مذھب الامام فقط فتوھم انہ لایستقیم علی مذھب الصاحبین واخطر الی تطویل الکلام بماکان فی غنی عنہ واشد سخافۃ واعظم شناعۃ مااعترٰی بعض اجلۃ المشاھیر من الذین ادرکناعصرھم اذحاولو انفی الحربیۃ عن بلادنا بناء علی عدم تحقق الشرط الثانی اعنی الاتصال بدارالحرب ایضًا فقالوامعنی الاتصال ان تکون محاطۃ بدارالحرب من کل جھۃ ولاتکون فی جانب بلدۃ اسلامیۃ وھو غیر واقع فی بلاد الھند اذجانبھا الغربی متصل بملک الافاغنۃ کفشاور وکابل وغیرھما من بلاد دارالاسلام ،
تو اس سے واضح ہوگیا کہ وہ دار جس میں دونوں قسم کے احکام کچھ کفر کے اور کچھ اسلام کے پائے جائیں جیسا کہ ہمارا یہ ملک ہے، صاحبین کے مذہب پر بھی دارالحرب نہ ہوگا کیونکہ یہاں خالص محض احکام کفر نہیں ہیں تو ہمارے بعض معاصرین کا یہ گمان کہ ہندوستان سے دارالحرب کی نفی کی بنیاد صرف امام صاحب کامذہب ہے، اس کا وہم ہے کہ صاحبین کے مذہب پر درست نہیں ہے اس نے طویل کلام کیا جبکہ اس کی ضرورت نہیں تھی، کمزور ترین اور سب سے خطر ناک موقف وہ ہے جو ہمارے زمانہ کے مشہور اجلہ حضرات کو لاحق ہوا ہے کہ انہوں نے ہمارے اس ملک سے دارالحرب کی نفی کی بنیاد شرط ثانی یعنی کسی دارالحرب سے اتصال کے نہ پائے جانے کو قرار دیا ہے اور انھوں نے اتصال کا معنی لیا ہے کہ چاروں طرف سے دارالحرب میں گھرا ہوا ہو اور کسی طرف سے دارالاسلام سے نہ ملا ہوا ہو چونکہ اتصال کا معنٰی ہندوستان میں نہیں پایا جاتا لہذا یہ دارالحرب نہ ہوگا کیونکہ ہندوستان غربی جانب سے افغانوں کے ملک پشاور اور کابل وغیرہ دارالاسلام سے ملا ہوا ہے،
اقول یالیتہ تفکر فی معنی الثغور اونظر الی فضائل المرابطین فتأمل فی معنی الرباط اوعلم ان مکۃ والشام والطائف وارض حنین وبنی المصطلق وغیرھا کانت دارحرب علی عھد النبی صلی اﷲتعالٰ علیہ وسلم مع اتصالھا بدارالاسلام قطعًا اوفھم ان الامام کلما فتح بلدۃ من بلاد الکفار واجری فیھا احکام الاسلام صارت دارالاسلام والتی تلیہا من البلاد تحت حکم الکفار دارحرب کما کانت اوتفطن ان لوصح ماقالہ لاستحال ان یکون شیئ من دیارالکفر دارحرب الاان یفصل بینھا وبین الحدود الاسلامیۃ البحاروالمفاوزولم یقل بہ احد، وذلک لانہ کلما حکمت علی بلدۃ بانھا دارحرب سألنا عما یحیطھا من البلاد فان کان فیھا من بلاد الاسلام کانت الاولی ایضا دارالاسلام لعدم الاتصال بالمعنی المذکور والانقلنا الکلام الی مایلاصقھا حتی ینتہی الی بلدۃ من بلاد الاسلام فتصیر کلھا دارالاسلام لتلازق بعضھا ببعض اولاتکون فی تلک الجھۃ بلدۃ اسلامیۃ الی منقطع الارض، وبالجملۃ ففساد ھذاالقول اظھر من ان یخفی وانما منشؤہ القیاس الفاسد وذٰلک ان الشرط عندالامام فی صیرورۃ بلدۃ من دارالاسلام دارالحرب ان لاتکون محاطۃ بدار الاسلام من الجہات الاربع وذٰلک لان غلبۃ الکفار اذن علی شرف الزوال فلاتخرج بہ البلدۃ عن دارالاسلام فزعم ان شرط الحربیۃ ان تکون محاطۃ بدارالحرب من جمیع الجوانب وما افسدہ من قیاس کما لایخفٰی عماافادالناس۔
اقول (میں کہتا ہوں کہ)کاش وہ سرحدوں کے معنٰی پر غور کرلیتے، یااسلامی سرحدوں کی نگرانی کی فضیلت کو دیکھتے ہوئے رباط کے معنی پر غور کرلیتے یا یہ معلوم کرلیتے کہ مکہ، شام، طائف، حنین، اور بنی مصطق کے علاقے وغیرہا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک زمانہ میں دارالحرب تھے حالانکہ ان سب کا دارالاسلام سے اتصال تھا، یا یہی سمجھ لیتے کہ مسلمان امام جب کفار کے کسی علاقہ کو فتح کرکے وہاں اسلامی احکام جاری کردیتا تو وہ علاقہ دارالاسلام بن جاتا ہے جبکہ اس سے متصل باقی علاقے جو کفار کے قبضہ میں بدستور ابھی تک موجود ہیں وہ پہلے کی طرح دارالحرب ہیں، یاان کو سمجھ آتی کہ جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں اگر صحیح ہوتو پھر دنیا بھر میں کوئی بھی دارکفر اس وقت تک دارالحرب نہ کہلائے جب تک ان میں اور دارالاسلام میں سمندروں اور بیابانوں کا فاصلہ نہ ہو، حالانکہ کوئی بھی دارالحرب کے اس معنٰی کا قائل نہیں ہے،یہ اس لئے کہ جب آپ کسی ملک کو دارالحرب کہیں گے تو ہم استفسار کریں گے کہ اس کے ارگرد کن ملکوں کا احاطہ ہے اگر کوئی بھی ان میں سے دارالاسلام ہوتو پہلاملک (دارالحرب) بھی دارالاسلام قرار پائے کیونکہ وہ اتصال جودارالحرب کا معیار ہے وہ نہ پایاگیا، ورنہ اگر ارد گرد اسلامی ملک نہ ہوتو پھر ہم اس سے ملنے والے دوسرے ملک کی بابت معلوم کریں گے حتی کہ ملتے ملاتے کوئی دارالاسلام پایاگیا تو یہ درمیان والے تمام ملک دارالاسلام ہوجائیں گے کیونکہ ان ملکوں کا آپس میں ایک دوسرے سے اتصال ہوگیا ہے،یاپھر یہ تسلیم کیاجائے کہ اس جہت میں کرہ ارض میں کوئی بھی دارالاسلام نہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ دارالحرب کے اس میعاد والے قول کا فساد واضح ہے جس میں کچھ بھی خفاء نہیں ہے، اس کی بنیاد یہ فاسد قیاس ہے کہ امام صاحب کے نزدیک کسی دارالاسلام کے دارالحرب بننے کے لئے یہ شرط ہے کہ چاروں اطراف سے وہ ملک دارالاسلام میں گھراہوانہ ہو کیونکہ اگر وہ گھراہوا ہوتو اس دارالحرب میں کفار کا غلبہ معرض سقوط میں رہے گا تو یوں وہ دارالاسلام سے خارج نہ رہے گا، لہذا انہوں نے خیال کرلیا کہ کسی ملک کے حربی ہونے کے لئے ضروری ہے کہ وہ چاروں طرف سے حربی ملکوں میں گھراہواہو، یہ قیاس نہایت ہی فاسد ہے جو عوام الناس کے لئے بھی مخفی نہیں۔(ت)

الحاصل ہندوستان کے دارالاسلام ہونے میں شک نہیں عجب ان سے جو تحلیل ربٰو کے لئے (جس کی حرمت نصوص قاطعہ قرآنیہ سے ثابت اور کیسی کیسی سخت وعیدیں اس پروارد) اس ملک کو دارالحرب ٹھہرائیں اور باوجود قدرت واستطاعت ہجرت کا خیال بھی دل میں نہ لائیں گویا یہ بلاد اسی دن کے لئے دارالحرب ہوئے تھے کہ مزے سے سود کے لطف اڑائیے اور بآرام تمام وطن مالوف میں بسر فرمائیے
Flag Counter