میں سرتاپا گناہوں کے سمندر میں ڈوبا ہوا تھا۔ شرابیوں اور آوارہ گرد دوستوں کی صحبت کی وجہ سے موجودہ معاشرے میں پائی جانے والی کئی برائیوں کا عملی نمونہ بن چکا تھا۔ غصے کا اس قدر تیز تھا کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑنے مرنے کو تیار ہو جاتا، یہ لڑائی جھگڑے میرے معمولات کا حصہ تھے نیز آئے دن اسکول سے بھاگ جانا، نوجوان لڑکے لڑکیوں کے ساتھ دوستیاں کرنا ان کے ساتھ آوارہ گھومنا پھرنا، سارا سارا دن کرکٹ کھیلتے رہنا، والدین کو ستانا، ان کی نافرمانی کرنا، ان کے سمجھانے پر زبان درازی کرنا، گالیاں دینا، مَعَاذَ اللہ اپنے باپ پر ہاتھ تک اٹھا دینا میرے نزدیک بُرا نہ تھا ۔ میں کیا کیا ذکر کروں ؟۔ میری حرکتوں سے تنگ آ کر گھر والوں نے میرا اسکول جانا بند کر دیا مگر میں پھر بھی اپنی حرکتوں سے باز نہ آیابلکہ مزید بگڑتا گیا۔ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق گھر والوں سے ناراض ہو کر منچن آباد آ گیا اور ایک ڈرائی کلینر کی دکان پر ملازمت اختیار کر لی۔ ایک دن میری ملاقات دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ ایک عاشقِ رسول اسلامی بھائی سے ہو گئی جو وہاں کے علاقائی قافلہ ذمہ دار تھے انہوں نے مجھے دعوتِ اسلامی کے ہفتہ وار سنّتوں بھرے اجتماع میں شرکت کی دعوت دی مگر میں نے کام کا بہانہ بنایا اور ان کے ساتھ اجتماع میں شرکت سے معذرت کر لی۔ انہوں نے آئندہ جمعرات شرکت کی نیّت کرنے کا کہا تو میں نے ہامی بھر لی۔ آئندہ جمعرات