فیضانِ قراٰن اور نوجوان
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!دماغی اور جسمانی صلاحیتوں سے صحیح معنوں میں جوانی ہی میں کام لیا جاسکتا ہے، عِلْمِ دین حاصِل کرنے اور مُطالَعہ کرنے کی عُمْر بھی جوانی ہی ہے ، بڑھاپے میں تو بارہا عقْل وفہْم کی قوتیں بیکار ہو کر رہ جاتی ہیں ، غور وفکْر کی صلاحیتیں ماند (ہلکی، کمزور) پڑ جاتی ہیں ، یادداشت کا خزانہ خالی ہوجاتا ہے، دِماغ خلَل کا شکار ہونے کے سبب انسان بچوں کی سی حرکتیں کرنے لگ جاتا ہے اور اُس سے بعض اَوقات ایسیمُضْحَکَہ خیز حَرَکات کا صُدور ہوتا ہے کہ بے اِختِیار ہنسی آجائے۔ لیکن خوشخبری ہے اُس نوجوان کے لئے جوتِلاوتِ قراٰن کا عادی ہے کہ اگر ایسے نوجوان کو بُڑھاپا آیاتو وہ اِن آزمائشوں اور آفتوں سے محفوظ رہے گا۔ جیسا کہ مُفسِّرِ شہیر،حکیم ُ الا ُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَنِی نقل فرماتے ہیں : ’’حضرتِ سیِّدُنا عِکْرِمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنہ فرماتے ہیں : جو مسلمان تِلاوتِ قراٰن کا عادی ہو،اُس پر اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ یہ(یعنی جوانی میں حاصِل کئے گئے عِلْم کو بڑھاپے میں بھولنے کی ) حالت طاری نہ ہو گی۔‘‘
(نور العرفان، پ۱۷، الحج، تحت الآیۃ:۵)
فِلموں سے ڈِراموں سے دے نفرت تُو اِلٰہی! بس شوق مجھے نعْت وتلاوت کا خدا دے
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
جوانی کی عبادت بُڑھاپے میں سببِ عافیّت
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! مذکورہ رِوایَت سے پتا چلا کہ تِلاوتِ قراٰن کرنے والا