غفلت کے بستر پر سوتے گزر گئی۔
دن بھر کھیلوں میں خاک اُڑائی لاج آئی نہ ذرّوں کی ہنسی سے
شب بھر سونے ہی سے غرَض تھی تاروں نے ہزار دانت پیسے
(حدائقِ بخشِش)
اب جبکہ بڑھاپا طاری ہوگیا،توصِحّت کمزوراور جسْم لاغَر ہوگیا، کثرتِ عِبادت کا شوق توپیدا ہوا لیکن بڑھاپے کے سبب حوصلہ ساتھ چھوڑ گیا۔
پھر وہ ضعیفُ العُمْر شخص اُس نوجَوان پر اِنفِرادی کوشِش کرتے ہوئے کہنے لگا: بیٹا!اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضْل واِحسان سے تم ابھی نوجَوان ہو، اِ س سے فائدہ اُٹھا لو، عِبادت پر کمَر بستہ ہوجاؤ،کَمَر جُھکنے سے پہلے ربّ تعالیٰ کے حُضور سَر کو جُھکا لو، ورنہ بڑھاپے میں میری طرح کمر جُھکائے جَوانی کو تلاش کرتے پھرو گے لیکن حسرت ونَدامت کے سِوا کچھ نہ ملے گا۔ کفِ افسوس ملتے رہوگے لیکن ہاتھ کچھ نہ آئے گااور حالات کا کچھ اِس طرح سے سامنا ہو گا:’’بچپن کھیل میں کھویا،جوانی نیندبھر سویا،بڑھاپا دیکھ کر رویا۔‘‘
اِس مُشفِقانہ اور ناصِحانہ اَندازِ گفتگو اور اِنفرادی کوشش کے مدَنی پھولوں کی خوشبو نے اُس نوجَوان کے دل ودِماغ کو مُعَطَّراوراُسے بے حد مُتاَثِّر کیا۔ تھوڑی دیر پہلے اُس بوڑھے پر طنز کے تیر چلانے والا نوجَوان اِنفِرادی کوشِش سے مُتَأَثِّر ہو کر اب اُسی بوڑھے کے سامنے آئندہ کے لیے جَوانی کی قدْر اور پرہیز گاری کی زندَگی بسَر کرنے کا عَہدوپَیمان کر رہا تھا۔