تلاش کر رہا ہے۔ ایک نوجَوان کو مسخَری سوجھی اور کہنے لگا:بڑے میاں ! کیا تَلاش کررہے ہو؟ بات اگرچہ غصہ دلانے والی تھی مگر اُس بُوڑھے نے صبْر وبرداشت اورسمجھ د اری کا کمال مُظاہَرہ کیا اور طنْزکے اِس زہریلے کانٹے کے جواب میں فکْر اَنگیز مدَنی پھول پیش کرتے ہوئے فرمایا:’’بیٹا! میں اپنی جَوانی تَلاش کررہا ہوں۔‘‘ تِیکھے جملے کا یہ خِلافِ توقُّع حیران کُن جواب سُن کر وہ نوجَوان چونکااور کہنے لگا: بابا جی! آپ کی بات سمجھ نہیں آئی، کیا جوانی بھی کبھی ڈھونڈی جا سکتی ہے؟ اور کیا یہ ایک دفعہ گُم ہوکر پھر کبھی کسی کو ملی ہے؟ فرمایا: بیٹا! یہی تَو اَفسوس ہے کہ جب جَوانی کی نِعمت میرے پاس تھی اُس وقْت اِس کی پاسداری نہ کرسکا اور آج جب میں اِس سے ہاتھ دھو بیٹھا تب اِس کی اَہَمِّیَّت(اَہَمْ-مِیْ-یَت)کا اِحساس ہوا۔کاش! مجھے جوانی کازمانہ ایک بارپھر مل جاتا تَو ماضی میں ہونے والی غلَطیوں اور کوتاہیوں کی تَلافی کرتا اور خوب دل لگا کراللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کرتا۔
اَ لَا لَیْتَ الشَّبَابَ یَعُوْدُ یَوْمًا
فَاُخْبِرُہُ بِمَا فَعَلَ الْمَشِیْبُ
یعنی ہائے کاش! میری جَوانی کبھی پلٹ کرآتی، تو میں اُس کو بتاتا کہ بڑھاپے نے میرے ساتھ کیا سُلوک کیا۔
پھر ایک آہِ سرد دلِ پُر درْد سے کھینچی اورکہا: افسوس صد افسوس! میں اپنی جوانی کی دولت لُٹا بیٹھا، لیکن! ’’ اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت ۔‘‘میں نے جَوانی کی ناقدْری کی ،اُس وقْت نیکی کی نہ آخِرت کی کوئی تیاری کی اور یونہی میری جَوانی