چاہئے۔والد صاحب کے بعد دادا جان اور بڑے بھائی کا رتبہ ہے کہ بڑا بھائی والد کی جگہ ہوتا ہے۔مصطَفٰے جانِ رحمت ،شمعِ بزمِ ہدایت ،تاجدارِ رسالت،صاحِبِ جودو سخاوت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کافرمانِ رحمت نشان ہے:’’ بڑے بھائی کا حق چھوٹے بھائی پر ایسا ہے جیسے والِد کا حق اولاد پر۔‘‘
(شُعَبُ الْاِیمان ج۶ ص۲۱۰ حدیث۷۹۲۹)
اولاد کو ادب سکھائیے
والدین کو بھی چاہئے کہ اپنی اولاد کے حقوق کا خیال رکھیں ، انہیں ماڈَرن بنانے کے بجائے سنتوں کاچلتا پھرتا نمونہ بنائیں ، ان کے اَخلاق سنواریں ،بری صحبت سے دُور رکھیں ، سنتوں بھرے مَدَنی ماحول سے وابستہ کریں۔فلموں ڈِراموں ،گانے باجوں اور برے رسم و رَواجوں سے بھر پور ،یادِ خدا ومصطَفٰے سے دورکرنے والے فحش فنکشنوں سے بچائیں۔ آج کل شاید ماں باپ اولاد کے حقوق یہی سمجھتے ہیں کہ ان کو دُنیوی تعلیم مل جائے ، ہنر اور مال کمانا آجائے ۔ آہ! اپنے لخت جگر کے لباس اور بدن کومیل کچیل سے بچانے کا توذِہن ہوتا ہے مگر بچّے کے دل ودماغ اور اَعمال و افعال کی پاکیزگی کا کوئی خیال نہیں ہوتا۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے محبوب،دانائے غیوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ والا نشان ہے:’’کوئی شخص اپنی اولاد کو ادب سکھائے وہ اس کیلئے ایک صاع۱؎ صد قہ کرنے سے افضل ہے ۔ ‘‘ ( تِرمِذی ج ۳ ص ۳۸۲ حدیث ۱۹۵۸)اور ارشاد ہے کہ’’ کسی باپ نے اپنی اولاد کو کوئی چیز ایسی نہیں
مــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
۱ یعنی تقریباً چارکلو غَلّہ۔